- فتوی نمبر: 6-96
- تاریخ: 24 جولائی 2013
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
میری ایک پھوپھی زاد ہیں جس کو میرے والد صاحب نے بچپن سے پالا پوسا، سب طرح کا خرچہ برداشت کیا، جان سے، مال سے، حتی کہ شادی، جہیز سب کیا پھر بچوں کا خرچ اٹھایا۔ والد کے انتقال کےبعد ہم بھائیوں نے سگی بہن سے بڑھ کر ہمیشہ خیال کیا، اب معاملہ یہ ہے کہ اسی بہن کے بچے نے جو کہ بارہ تیرہ سال کا تھا گھر میں آ کر چوریاں شروع کر دی، ہم بھائیوں کے جیبوں سے پیسے وغیرہ نکال لیتا، لیکن بہن کو ہم نے بوجہ بہن کی ناراضگی کے کبھی کچھ نہیں کہا۔
لیکن میری شادی کے بعد اسی لڑکے نے میری اہلیہ کی الماری میں گھس کر زیور پہ ہاتھ صاف کیا جو کہ ایک چھوٹا سیٹ تقریباً 3 تولہ تھا اور میری والدہ کے جھمکے آدھنے تولے کے اور نقد رقم 15000 روپے، اس کے علاوہ میری چھوٹی بھاوج کا زیور تقریباً ڈیڑھ تولہ سونا چوری کر لیا۔ جب ہم بھائیوں نے لڑکی کی اس حرکت پر لڑکے سے باز پرس کرنی چاہی تو بہن نے اپنے بیٹے کو گھر سے فرار کرا دیا۔ کافی دن بعد ہم بہن کے گھر گئے اور وہاں بہن سے تکرار ہوئی اور ہم بھائیوں نے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنا زیور بطور ضمانت ہمیں دے۔ کہ جب وہ ہمارا نقصان پورا کر دے گی تو ہم اس کا زیور اسے لوٹا دیں گے۔ بہن سے مندرجہ ذیل زیور لیا گیا:
سونے کی چوڑیاں۔ وزن 4 تولے
سونے کا سیٹ۔ وزن 3 تولے
کافی عرصہ وہ زیور بہن کا ہمارے پاس رکھا رہا اور میری اہلیہ نے وہ چوڑیاں تڑوا کر ایک تین تولے کا سیٹ اپنا بنوا لیا۔ جب کہ چھوٹی بھاوج نے بہن کا سیٹ واپس کر دیا یہ کہہ کر کہ یہ تاوان ہو جائے گا۔
آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ ہمارا یہ اقدام درست تھا یا نہیں؟ کیونکہ بہن اپنے بیٹے کے ساتھ شامل ہے اور اس لڑکے کی چوری ثابت بھی ہو گئی کہ زیور میں ہمارے ایک پتھر بھی لگا ہوا تھا، بہن وہ پتھر واپس کر گئی کہ اس کی تو ٹکے کی بھی قیمت نہیں ہے۔ اب بہن ہم سے ناراض ہے اور دل میں سخت خار رکھے ہوئے ہے۔
براہ کرم ہمارے اس مسئلے کا حل بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمارا اقدام صحیح تھا یا غلط؟ اگر غلط تھا تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کا تاوان لینا جائز ہے۔
و لو سقط القطع بشبهة ضمن لأن المانع من الضمان هو القطع و قد زال المانع. (بدائع: 6/ 37)
اور جیسا کہ فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
"جواب: ۔۔۔ مال مسروقہ جس میں قطع ید نہیں ہے یا بوجہ عدم وجود شرائط قطع کے قطع ید نہیں ہو سکتا اس کی ضمان بصورت ہلاک و استہلاک لازم ہے۔” (فتاویٰ دار العلوم دیوبند، کتاب السرقہ: 12/ 131) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved