- فتوی نمبر: 1-77
- تاریخ: 31 جنوری 2006
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
میں ایک دکاندار ہوں میری دکان میں ملا جلا سامان تجارت ( کریانہ، کپڑا، جوتہ) وغیرہ چھوٹی، بڑی اشیاء تقریباً ایک لاکھ مالیت کی موجود ہیں جو تقریباً پورا سال کم و بیش اتنی مالیت کا سامان تجارت موجود رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً کم ہوتا یا بڑھ جاتا ہے جو کہ زکوٰة کے نصاب سے کبھی کم ہوجاتا ہے اور کبھی بڑھ جاتا ہے اور ہماری زرعی زمین ساڑھے چار کنال ( مالیت تقریبا 12 لاکھ روپے) جو کہ میری ملکیت ہے۔ اور دکان جو کہ 14×12 رقبہ پر مشتمل ہے۔ جس کی مالیت تقریباً 40000 روپے کم و بیش ہے اور ہمارے گھر میں تقریبا 2 تولے طلائی زیورات بھی ہیں جو کہ میری بیوی کی ملکیت ہیں۔ اور ہمارے پاس ایک عدد بھینس جس کی قیمت 10000 روپے لگی ہے اور ہم نے وہ بٹائی پر دے رکھی ہے۔
ان تمام چیزوں کی موجودگی میں ہمارے اوپر کتنی زکوٰة واجب ہے اور کن کن چیزوں پر واجب ہے اور ہم زکوٰة ادا کرتے وقت سامان تجارت کا اندازہ لگاتے ہیں جس میں کمی و زیادتی کا احتمال موجود ہوتا ہے ایسی صورت میں زکوٰة ادا ہو جائے گی یا سامان تجارت مکمل طور پر گن گن کر یا ناپ تول کر کے صحیح رقم لگانا ہوگی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سوال میں مذکورہ چیزوں میں سے سامان تجارت پر سال گذرنے کے بعد زکوٰة واجب ہوگی۔ سال کے اختتام پر جتنا سامان تجارت موجود ہو بشرطیکہ نصاب کے بقدر ہو اس کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد نکالنا واجب ہے۔
سامان تجارت کی قیمت لگانے میں یا تو ایک ایک چیز کی قیمت فروخت کے حساب سے اس کا ڈھائی فیصد ادا کر دیں اور یا کل سامان تجارت کی قیمت فروخت کا اندازہ لگا کر اندازے سے کچھ زیادہ ادا کردیں۔
اور اگر سائل کی بیوی کے پاس دو تولے زیور کے ساتھ کچھ روپے بھی ملکیت میں ہوں تو اس پر زیور کی بھی زکوٰة ادا کرنی ہوگی۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved