• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مال پہنچانے والے پر ضمان کی شرط لگانا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ ہم تجارتی کام کرتے ہیں۔ جس کی صورت حال یہ ہے کہ باہر دوسرےملکوں سے پشاور میں مال آتا ہے، اس میں صابن، سگریٹ، چاکلیٹ، نسوار ہوتے ہیں۔

باہر سے آنے والے مال کو ہم لاہور لاتے ہیں۔ لانے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہم لاہور سے فون کے ذریعے پشاور میں دکاندار سے مال خریدتے ہیں، وہاں پر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس طرح کا مال وہاں سے لاہور لاتے ہیں ہم ان سے رابطہ کرتے ہیں کہ ہمارا مال فلاں دکاندار سے وصول کرو اور ہمیں پہنچا دو۔ راستے کے چیک پوسٹ والوں کے ساتھ ان لوگوں کا لین دین بنا ہوا ہوتا ہے۔ ان کو کچھ دے دلاکر مال وہاں سے گذار کے لے آتے ہیں۔ یہ افراد جو پشاور سے مال ہمارے پاس لاتے ہیں ہم ان سے دو طرح سے معاملہ کرتے ہیں:

1۔ کہ ہم تک مال پہنچاؤ، اور ہم تم کو اتنا کرایہ دیں گے مثلاً 10000 روپے کا مال ہے تو اس پر 1000 روپے کرایہ دیں گے۔ اس صورت میں اگر مال راستے میں پکڑا گیا تو وہ ذمہ دار نہ ہو گا۔

2۔ کہ ہم تک مال پہنچاؤ، مذکورہ مال پر ہم 2000 روپے کرایہ دیں گے اگر مال پکڑا گیا تو تم مال کے ذمہ دار ہوگے، ہم آپ سے مال کی قیمت لیں گے۔ قیمت ہم پہلے بتا دیتے ہیں کہ اتنی قیمت کا مال ہے۔

اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر دوسرا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد یہ پوچھنا ہے کہ

مال پہنچانے کے مذکورہ بالا دو نوں طریقے جائز ہیں یا ناجائز؟ پہلی صورت میں ہمارا مال اور ان کا کرایہ دونوں ضائع۔ دوسری صورت میں اگر مال ہلاک ہو جائے تو وہ ذمہ دار ہو گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مال کی وصولی کے مذکورہ دونوں طریقے جائز ہیں۔ چنانچہ امداد الاحکام میں ہے:

…… قال في الدر: واشتراط الضمان على الأمين كالحمامي والخاني باطل، به يفتى، خلاصه، قال الشامي: وأما من جري العرف بأنه يأخذ في مقابلة حفظه أجرة يضمن، لأنه وديع بأجرة، لكن الفتوى على عدمه. سائحاني. قال: وانظر حاشية الفتال. وقد يفرق بأنه هنا مستأجر على الحفظ قصداً بخلاف الأجير المشترك، فإنه مستأجر على العمل. تأمل (شامي: 8/456)

وفي الدر في باب ضمان الأجير، ولا يضمن ما هلك في يده وإن شرط عليه الضمان، لأن شرط

الضمان في الأمانة باطل كالمودع خلافاً للأشباه اه. قال الشامي: قوله خلافاً للأشباه أي من أنه لو شرط ضمانه ضمن إجماعاً وهو منقول عن الخلاصة، وعزاه ابن ملك للجامع اه (5/61-62)

اور اس  سے معلوم ہو گیا کہ سوال سوم میں جس بیمہ سے سوال ہے یعنی ڈاکخانہ کا بیمہ اور ڈاکخانہ سے ضمان لینا وہ جائز ہے کیونکہ اس کی حقیقت عقد اجارہ ہے۔ اور اجیر پر ضمان کی شرط  ہے اور ڈاکخانہ اس ذمہ داری کے معاوضہ میں اجرت زائد لیتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اور یہی صورت بیمہ کمپنی کے ساتھ معاملہ میں اختیار کی جائے کہ اس سے حفاظتِ مکان و دکان پر عقد اجارہ کیا جائے اور حفاظت کے معاوضہ میں کچھ اجرت کمپنی کو ماہور یا سالانہ دی جائے۔ اور مکان و دکان کے جل جانے پر اس سے ضمان لیا جائے تو درست ہے۔ بدون اس کے جو صورت بیمہ دکان و مکان کی رائج ہے وہ درست نہیں۔ واللہ اعلم۔ (3/492)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved