• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مال تجارت کی زکوٰۃ حقیقی ویلیو پر آتی ہے نہ کہ عاقدین کے آپس میں کسی رقم پر رضا سے طے ہونے والی رقم پر

استفتاء

ہماری پینٹ بنانے کی ایک بڑی کمپنی ہے۔پینٹ بنانے کے بعد اسے ڈبوں میں ڈال کر فروخت کیا جاتا ہے۔ہم سے پینٹ خریدنے والے لوگ ڈیلر حضرات ہوتے ہیں۔پینٹ کے ہر ڈبے پر ایک قیمت مثلاًایک سو روپیہ (100) لکھتے ہیں یہ وہ قیمت ہوتی ہے جو عام طور سے ڈیلر حضرات یہ ڈبے آگے فروخت کرتے ہیں،لیکن مارکیٹ اور علاقہ کے لحاظ سے ریٹ کم یا زیادہ بھی ہوتا ہے،اسی طرح کسی ڈیلر کو کمپنی کی طرف سے زیادہ ڈسکاونٹ ملنے کی امید ہو تو وہ کم ریٹ پر بھی فروخت کرتا ہے،بعض ڈیلر زیادہ پر بھی بیچتے ہیں۔

کمپنی کی طرف سے ڈیلرز وہ ڈبہ 75روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔پھر کمپنی کی مختلف ڈسکاونٹ پالیسیاں ہوتی ہیںجن کی وجہ سے ڈیلرکو وہ ڈبہ 75روپے سے بھی کم میں پڑتا ہے مثلاً سالانہ ڈسکاونٹ پالیسیوں کو پیشِ نظر رکھ کر جب سال کے آخر میں حساب کتاب کیا جاتا ہے تو ڈیلرز کے ڈسکاونٹ کم زیادہ ہونے کی وجہ سے بعض ڈیلرز کو فی ڈبہ 55 روپے میں جبکہ بعض کو اس سے زیادہ میں پڑتاہے۔

اب قابل ِ دریافت بات یہ ہے کمپنی کے پاس جو سٹاک رکھا ہوا ہے اس کی زکوٰۃ کون سی قیمت پر ہوگی، آیا زکوٰۃ اس قیمت کے حساب سے ادا کی جائے جس پر عام طور سے ڈیلر حضرات یہ ڈبے آگے فروخت کرتے ہیں۔ یا ڈیلرز کیلئے جو ریٹ طے کیا گیا ہے یعنی 75روپے۔ یا پھر ڈسکاونٹ کے بعد کی جو قیمت ہے جو کہ ڈیلرز کے ڈسکاونٹ کے کم یا زیادہ ہونے کی وجہ سے بدلتی رہتی ہے ۔براہِ کرم شرعی رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زکوٰۃ ،مالِ تجارت کی قیمت (مال تجارت کی حقیقی ویلیو)پر آتی ہے نہ کہ ثمن(سامانِ تجارت کی جس قیمت پر عاقدین متفق ہوجائیں) پر۔ کیونکہ قیمت سامانِ تجارت کی حقیقی ویلیو کی نمائندگی کرتی ہے ۔جبکہ ثمن کا تعلق عاقدین کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے۔اسی وجہ سے بعض اوقات تاجرمختلف وجوہات کے پیشِ نظر اپنی چیز آدھی قیمت پر یا بالکل مفت بھی دیدیتا ہے۔لیکن اس سب کے باوجود اس چیز کی حقیقی ویلیو برقرار رہتی ہے۔

اس تمہید کے پیشِ نظر مذکورہ صورت میں کمپنی نے ڈیلرز کیلئے جو ریٹ طے کیا ہے یعنی 75 روپے،کمپنی اسی ریٹ کے مطابق زکوٰۃ ادا کرے گی،کیونکہ کمپنی کے حق میں یہی ریٹ قیمتِ فروخت ہے۔ڈیلر جس ریٹ پر یہ ڈبے آگے فروخت کرتے ہیں وہ ریٹ کمپنی کے حق میں قیمتِ فروخت نہیں۔اسی طرح ڈسکاؤنٹ کا تعلق قیمت کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ ثمن کے ساتھ ہوتا ہے۔جبکہ زکوٰۃ کا تعلق قیمت کے ساتھ ہوتا ہے۔اسلئے زکوٰۃ کی ادائیگی میں ڈسکاؤنٹ والی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا۔

فقه الإسلامي وادلته:(٢/٢٥١) طبع دارلفکر بیروت:

یقوم التاجر العروض أو البضاع التجاریة في کل عام بحسب سعرها في وقت إخراج الزکاة لا بحسب شرائها.

(٢) المعاییر الشرعیة: (الزکاة /٢۔احکام اجرائیة)

ب) تقاس الموجودات المعدة للمتاجرة علی أساس القیمة النقدیة المتوقع تحقیقیها

(القیمة السوقیة للبیع) وقت وجوب الزکاة.

(٢٣) امداد الفتاوی:( ٢:٧١،٧٢۔مکتبہ دارالعلوم کراچی)

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس صورت میں کہ زید تاجر کتب اپنی کتب مختلف طور سے فروخت کرتا ہے۔کسی کو نصف قیمت پر دیتا ہے کسی کو٣/١ قیمت کی رعایت کر دیتا ہے۔کسی کو چوتھائی قیمت کی تخفیف کردیتا ہے اور کسی کو ثمن کی کمیشن پر دیتا ہے اور بعض کو پوری مشتہر قیمت پر دیتا ہے۔اور مال خریدنے کی بھی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔اب وہ چاہتا ہے کہ اپنے مال کی زکوٰۃ نقد روپے میں ادا کرے تو کونسی قیمت کا اعتبار ہوگا۔خرید کا یا فروخت کا۔اور فروخت میں کونسی صورت کا اعتبار کیا جاوے گا۔

الجواب: جزئیہ ملنے کی تو کوئی امید نہیں۔قواعد سے معلوم ہوتا ہے کہ تاجرانہ قیمت کا تو اعتبار نہیں۔کیونکہ وہ مبنی ہے تخفیف و رعایت ومصالح خاصہ پر بلکہ متفرق خریدار جس قیمت پر لیتے ہیں وہ معتبر ہے۔اور اس میں اگر اختلاف ہو تو اکثر واشہر کااعتبار ہے۔اور وہ قریب قریب متعین ہو تی ہے۔یعنی وہ قیمت کہ اگر کوئی تخفیف کی درخواست نہ کرے تو اس قیمت پر فروخت کیا جایا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved