• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مالی جرمانہ عائد کرنے کا حکم

استفتاء

کسی قسم کا جرمانہ بطور سزا یا تادیبی کارروائی کے نہیں ہے۔اب  وفاق المدارس کی طرف سے جو طے ہے کہ اگر ایک مہینے سے زیادہ تاخیر کی تو دوگنا فیس ہو گی اس طرح وقت کے ساتھ فیس میں اضافہ ہوتا ہے تو کیا یہ جرمانہ ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ایک مدرسہ والوں نے اس کو دلیل بنا کر طلباء پر چار چھٹیوں کا پانچ سو جرمانہ عائد کیا ہے بصورت دیگر داخلہ کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے۔یہ ایک بڑی پریشانی

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تادیب اور سزا کے طورپر مالی جرمانہ عائد کرنا  شرعا جائز نہیں ہے،لہذا مدرسہ والوں  کے لیے جائز نہیں کہ وہ طلباء سے  چھٹیاں کرنے پر جرمانہ لیں البتہ اس کی گنجائش ہے کہ وقتی طور پر لے لیں اور بعد میں کسی بھی عنوان سے انہی طلباء کو  واپس کردیں  جن سے لیا تھا۔

نوٹ:  وفاق المدارس العربیہ  کے نظم میں جو صورت  سوال میں مذکور ہےوہ  مالی جرمانہ کی نہیں بلکہ وہ اصل فیس ہی ہے  جو ایک مدت  میں کم مقدار میں ہے اور دوسری مدت میں اضافی مقدار میں طے کی گئی ہے۔

درمختار مع رد محتار (6/98)میں ہے:

(لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved