• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ماں کو فون کیا یا اس کے گھر گئی تو اس کو طلاق ہو گی

استفتاء

میں نے اپنی بیوی پر شرط عائد کی تھی کہ اگر اس نے اپنی ماں کو فون کیا یا اس کے گھر گئی تو اس کو طلاق ہو گی۔ اجازت کا لفظ استعمال کیا تھا یا نہیں؟ وہ ٹھیک طرح سے یاد نہیں ہے اور بیوی سے پوچھنے کی صورت میں بھی نہیں ہے کیونکہ وہ اب تک ناراض ہے، میرے ذہن میں یہ تھا کہ اگر چلی گئی یا فون کر بھی لیا تو طلاق نہیں ہو گی، میری طرف سے اجازت ہے۔ کچھ دن کے بعد اس نے ضد کی، میں نہ مانا تو وہ غصے میں بہت بولی جس کی وجہ سے میں نے کہا کہ ’’دفعہ ہو جاؤ‘‘ یہ بھی کہا کہ لیپ ٹاپ نہ لے کر جانا، میرے ذہن میں تھا کہ اگر یہ چلی گئی یا فون کر لیا تو طلاق لاگو نہیں ہو گی، صرف ڈرانے کی خاطر یہ شرط لگائی تھی۔ کچھ مہینے پہلے ہماری ایک  طلاق ہو چکی تھی جس کے بعد رجوع ہو گیا تھا، اس واقعے کے دو مہینے بعد میں نے فون پر اس کو ایک اور طلاق دے دی، کیونکہ میرے خیال میں شرط  والی طلاق لاگو نہیں ہوئی تھی، اس واقعے کو پانچ سال گذر چکے ہیں۔ میں اس کو واپس لانا چاہتا ہوں اگر کوئی شرعی مسئلہ نہ ہو، کیا ہم دوبارہ سے نکاح کر سکتے ہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:

جب اب تک آپ کی بیوی ناراض ہے یہاں تک کہ اس سے کچھ پوچھنے کی صورت بھی نہیں ہے جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے تو اسے آپ کیسے واپس لائیں گے اور دوسری  بات یہ ہے کہ اگر آپ اسے واپس آنے پر کسی طرح بھی رضا مند کر لیتے ہیں تو سوال میں ذکر کردہ تمام طلاقوں کے متعلق اس کا مؤقف بھی مہیا کریں۔

جواب وضاحت:

وہ ناراض ہے لیکن کچھ رشتے داروں کی مدد سے واپس لانے کی کوشش کی جا سکتی ہے اگر کوئی شرعی مسئلہ نہ ہو۔

اس کا مؤقف یہ ہے کہ ابھی دو طلاق ہوئی ہیں اور یہ مجھے اس لیے پتا ہے کہ ہماری صلح ہوئی تھی اور وہ واپس آنے کے لیے رضا مند تھی لیکن وہ جاب (نوکری) نہیں چھوڑنا چاہتی تھی اس لیے پھر سے لڑائی ہو گئی۔

جب وہ ماں کے گھر چلی گئی تھی میرے منع کرنے کے بعد تو ایک دن سامان لینے آئی تھی جبکہ میں گھر پر نہیں تھا اور پھر چلی گئی، اس دوران ہو سکتا ہے اس نے اپنی ماں کو فون بھی کیاجس کا مجھے یقین نہیں لیکن کبھی تو عدت پوری ہونے سے پہلے فون کیا ہو گا ۔

مندرجہ ذیل امور کی وضاحت مطلوب ہے:

1۔ سب سے پہلی طلاق کب ہوئی اور اس میں کیا الفاظ استعمال کیے تھے، نیز رجوع اس طلاق کے کتنے عرصے بعد ہوا اور کس طرح ہوا؟

2۔ شرط والی طلاق کا پورا پس منظر کیا تھا؟

3۔ جو طلاق آپ نے آخر میں فون پر دی وہ شرط کی خلاف ورزی کرنے کے کتنے عرصے بعد دی؟

ان تمام امور کی وضاحت تفصیل سے لکھیں۔

جواب وضاحت:

پہلی طلاق جنوری 2012ء میں ہوئی تھی ، الفاظ یہ تھے ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘۔ جس کے بعد وہ اپنی والدہ کے گھر چلی گئی اور تقریباً تین ما ہ بعد واپس آئی لیکن ابھی تین حیض نہیں ہوئے تھے کیونکہ اس کو ماہواری دیر سے آتی ہے، واپس آنے کے بعد ازدواجی تعلق قائم ہو گیا، واپس آنے کے بعد اس کا برتاؤ وقتاً فوقتاً میرے ساتھ اچھا نہیں رہتا تھا جس کی وجہ سے میں نے تنگ  آکر اس پر پابندی والی (شرط والی) طلاق لاگو کی۔ میرا خیال تھا کہ اگر میں اپنے ذہن میں اس کو اجازت دے دوں تو یہ طلاق لاگو نہیں ہو گی، اگر وہ پابندی نہ بھی کرے صرف تھوڑی سختی کے لیے ایسا کیا تھا تاکہ وہ اپنا برتاؤ ٹھیک کر لے، جب وہ ماں کے گھر چلی گئی ، اس کے دو ماہ بعد میں نے فون پر طلاق دی کیونکہ وہ واپس نہیں آرہی تھی تو میں نے غصے میں ایک طلاق دے دی تاکہ وہ عدت پوری ہونے سے پہلے واپس آجائے، لیکن وہ نہ آئی۔ میرے خیال میں یہ دوسری طلاق تھی کیونکہ میں سمجھ رہا تھا کہ شرط والی طلاق لاگو نہیں ہوئی، اس وقت وہ حاملہ بھی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع ہو سکتا ہے۔

توجیہ: ایک رجعی طلاق جنوری 2012ء میں ہوئی جس میں شوہر نے یہ کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘۔اس طلاق کے بعد عدت گذرنے سے پہلے رجوع ہو گیا۔ دوسری طلاق شوہر کے اس جملے سے ہوئی ’’اگر اس نے اپنی ماں کو فون کیا یا اس کے گھر گئی تو اس کو طلاق ہو گی‘‘ اس شرطیہ طلاق کا اجازت سے مشروط ہونا یقینی نہیں، لہذا اجازت یا بغیر اجازت کے ماں کو فون کرنے سے یا ماں کے گھر جانے سے بیوی کو ایک رجعی  طلاق اور ہو گئی۔ اس رجعی طلاق کی ابھی  عدت مکمل نہ ہوئی تھی کہ شوہر نے ایک طلاق اور دیدی جو عدت میں دیے جانے کی وجہ سے واقع ہو گئی۔

فتاویٰ شامی: (5/577) میں ہے:

حلف لا يدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى إليه عرفاً ولو تبعاً. و في الشامية قوله: (ولو تبعاً) حتى لو حلف لا يدخل دار أمه أو بنته وهي تسكن مع زوجها حنث بالدخول، نهر عن الخانية.

قلت: وهو خلاف ما سيذكره آخر الأيمان عن الواقعات، لكن ذكر في التاترخانية أن فيه اختلاف الرواية، ويظهر لي أرجحية ما هنا حيث كان المعتبر نسبة السكنى عرفاً، ولا يخفى أن بيت المرأة في العرف ما تسكنه تبعاً لزوجها، وانظر ما سنذكره آخر الأيمان.

و في آخر الأيمان:

حلف لا يدخل دار فلان انتظم المملوكة والمستأجرة والمستعارة لأن المراد بها المسكن عرفاً، و لابد أن تكون سكناه لا بطريق التبعية فلو حلف لا يدخل دار فلانة فدخل دارها وزوجها ساكن بها لم يحنث، لأن الدار إنما تنسب إلى الساكن وهو الزوج. نهر عن الواقعات.

و في الشامية: وقد ذكر في الخانية أيضا مسألة الواقعات وقال إن لم ينو تلك الدار لا يحنث لأن السكنى تضاف إلى الزوج لا إلى المرأة ويمكن الجواب بأن الدار في مسألة الخانية المارة لما لم تكن للمرأة انعقدت يمينه على دار السكنى بالتبعية فحنث أما في مسألة الواقعات المذكورة هنا فالدار فيها ملك المرأة فانصرفت اليمين إلى ما ينسب إليها أصالة فلما سكنها زوجها نسبت إليه وانقطعت نسبتها إليها فلم يحنث الحالف بدخولها ما لم ينوها.

و قال الرافعي: و الأوجه حمل ما في الواقعات على رواية اھ  بل الحنث في مسألة الواقعات أولى من الحنث في مسألة الخانية، فإنه قد اكتفى للحنث فيها بمجرد السكنى تبعاً فإذا وجدت مع نسبة الملك يكون الحنث بالأولى. (5/719)

واضح رہے کہ ’’خانیہ‘‘ اور ’’واقعات‘‘ میں ذکر کردہ مسئلے میں تعارض نہیں کیونکہ  ’’واقعات‘‘ میں ذکر کردہ مسئلے کی صورت در اصل یہ ہے کہ مکان ملک تو بیوی کی ہے لیکن رہائش شوہر نے رکھی ہوئی ہے اور بیوی شوہر کے ساتھ رہائش پذیر نہیں ہے۔ لہذا یہ مکان چونکہ عرفاً شوہر کا مسکن ہے اور بیوی اس کے ساتھ رہائش پذیر نہیں ہے اس لیے ’’لا یدخل دار فلانة‘‘ کہنے سے اس گھر میں داخل ہونے سے حالف، حانث نہ ہو گا الا یہ کہ حالف نیت کرے تو حانث ہو گا کیونکہ ملکیت تو بیوی کی ہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved