• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مبیع کاعیب نہ بیان کرنے کی صورت میں حاصل ہونے والی کمائی کا حکم

استفتاء

ہم دو دوستوں نے بڑی عید  سے تین چار دن پہلے منڈی میں قربانی کا  جانور(ویڑا) تجارت کی نیت سے دو لاکھ ستر ہزار کا خریدا ،خریدنے کے بعد معلوم ہوا کہ جانور کے کھر میں کوئی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے چلنے میں دشواری ہوتی ہے جب دم مروڑی جاتی  تھی تو چلتا تھا ،وہ جانور ہم دونوں سے نہیں بکا ہم نے ایک بیوپاری سے ڈیل کر لی کہ وہ اس جانور کو بیچے جب بک جائے گا تو اس کو بھی کچھ پیسے(بطور معاوضہ)  دیں گے پھر اس بیوپاری نےجانور تقریبا   دو لاکھ60 ہزار کا بیچ دیا یعنی 10 ہزار کم قیمت پر ۔

بیوپاری نے خریدار کو اس جانور کا عیب  نہیں بتایا خریدار کو یہ کہا کہ یہ بہت خوبصورت جانور ہے۔ خریدار نے اپنے مطابق تسلی کر لی اور جانور خرید لیا ہم نے بیوپاری کو بطور معاوضہ دو ہزار روپے دیے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے لیے 2 لاکھ 58 ہزار روپے میں سے کتنے روپے حلال ہیں اور کتنے حرام ؟ ہم نے ان پیسوں کو استعمال کر لیا ہے اور وہ پیسے اور پیسوں سے تبدیل ہو گئے ہیں یعنی کسی کو قرضہ دیا تھا پھر اس نے قرضہ واپس کر دیا  ہے بیو پاری نے جس کو یہ جانور بیچا تھا ہم اس کو بھی نہیں جانتے اور نہ بیوپاری اس کو جانتا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے:کیا آپ نے بیوپاری سے عیب کے متعلق کوئی بات کی تھی؟

جواب وضاحت:ہاں ہم نے اس سے کہا تھا کہ براءت عن العیوب کر کے بیچنا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ بیع (خریدوفروخت )سے حاصل ہونے والے روپے آپ کے لیے حلال ہیں لیکن مبیع کا عیب بیان نہ  کرنے کی وجہ سے بیوپاری گناہ گار ہوگا۔آپ کو گناہ نہ ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ سائل  (مؤکل) نے بیوپاری کو کہہ دیا تھا کہ عیب سے براءت کر کے بیچنا مگر بیوپاری نے ایسا نہ کیا لہذا  سائل گناہ گار نہ ہوگا۔

شامی (5/47) میں ہے:

لا يحل ‌كتمان ‌العيب ‌في ‌مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام

(قوله؛ ‌لأن ‌الغش ‌حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته، قال الصدر لا نأخذ به. اهـ. قال في النهر: أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا؛ لأنه صغيرة. اهـ

قلت: وفيه نظر؛ لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة، بل الظاهر في تعليل كلام الصدر أن فعل ذلك مرة بلا إعلان لا يصير به مردود الشهادة، وإن كان كبيرة كما في شرب المسكر

امداد الاحکام (3/417) میں ہے:

سوال: میری دکان میں ایسے کپڑے ہیں جن میں کوئی نہ کوئی عیب ہوتا ہے کسی میں کوئی داغ ہوتا ہے کوئی کسی مقام سے کٹا ہوتا ہے اس لیے یہ ٹکڑے بازار کے تھانوں سے کم نرخ پر بکتے ہیں جو لوگ کپڑے میں تفاوت چاہتے ہیں وہ میرے یہاں خریدنے آتے ہیں ان کو کپڑے کا عیب بتانا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب : بہتر ہے کہ عیب صاف صاف بیان کر دیا جائے اگر اس کی ہمت نہ ہو تو کم از کم یوں کہہ دیں  کہ اچھی طرح دیکھ لو میں عیب کا ذمہ دار نہیں جیسا مال ہے سامنے ہے اس کے بعد بھی جو راضی ہو کر خریدے گا تو آپ پر شرعاً  کتمان عیب کا گناہ نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved