• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مدارس میں حیلہ تملیک

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ دینی مدارس میں تملیک کے لیے داخلہ فارم میں جو عبارت تحریر ہوتی ہے کیا وہ کافی ہے؟ بطور نمونہ کچھ مدارس کے فارم ساتھ لف ہیں۔

اگر کافی ہے تو کیا تملیک کی ہوئی زکوٰة و  صدقات واجبہ کی یہ رقم تنخواہ، تعمیر، بل وغیرہ میں استعمال کی جاسکتی ہے؟ اگر یہ عبارت ناکافی ہے تو کس صورت میں کافی ہوسکتی ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ جن طلباء سےتملیک کروائی جائے ان کا بالغ ہونا شرط ہے یا نابالغ سے بھی تملیک کروائی جاسکتی ہے؟ جیسا کہ حفظ کے مدارس کے طلباء۔ اگر نابالغ کی تملیک ناکافی ہے تو کیا ان کے والد یا سر پرست سے دستخط اور اجازت لینے سے تملیک ہوجائے گی؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مدارس میں تملیک کی جو مروجہ صورتیں ہیں وہ تقریبا ایک جیسی ہیں اور ہمیں ان سے اتفاق نہیں۔

ہماری نظر میں یہ طریقہ  ہے کہ اول تو مهتمم ہر طالب علم پر مدرسہ میں قیام ، کھانے اور تعلیم کے اخراجات کی مد میں فیس مقرر کر دے۔ اور پھر مهتمم ہر مستحق طالب علم کا ماہانہ وظیفہ صدقات واجبہ میں سے اور غیر مستحق کا صدقات واجبہ کے علاوہ  میں  سے مقرر کر دے اور یہ وظیفہ اس کو پکڑا بھی دیا جائے ۔پھر اس میں کچھ رقم چھوڑ کر (کہ جو طالب علم کے ناشتے اور بعض دیگر ضروریات کے لیے ہو) باقی رقم جو ماہانہ فیس کے بقدر ہو قیام ، کھانے اور تعلیم کے اخراجات کی مد میں لے لی جائے ۔مثلاً آٹھ سو روپے اس کو دیے اور اس میں سے سات سو روپے اس مذکورہ اخراجات کے لیے لے لیے۔ اس طریقہ سے کھانےکے اخراجات  تو واضح ہیں۔ قیام کے اخراجات میں سے بجلی گیس پانی مدرسہ کے خدمتی عملہ کی تنخواہیں بشمول انکی رہائش اور مدرسہ کی تعمیر مرمت کے خرچے نکالے جا سکتے ہیں۔ تعلیم کے اخراجات میں سے اساتذہ کی تنخواہیں اور ان کی رہائش  کے خرچے اور درسی کتب کے اخراجات نکالے جاسکتے ہیں۔ اس طریقہ کار میں ایک اور آسان طریقہ یہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ شروع سال میں طلبہ سے ایک فارم پر دستخط  کرالیے جائیں کہ وہ مدرسہ کے مقرر  کیے ہوئے ایک ملازم کو اپنا وکیل مقرر کرتے ہیں جو مهتمم سے ان کا وظیفہ وصول کر لے اور اس میں سے مدرسہ کے مطلوبہ اخراجات ادا کردے اور بقیہ رقم ( جو ان کے ناشتہ وغیرہ کی ہو ) ان کو ادا کر دے۔

اور اگر آپ نے تملیک کی مروجہ صورتوں ہی میں سے کسی کے بارےمیں فتوی لینا ہو تو آپ کسی اور دارالافتاء سے رجوع کریں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved