- فتوی نمبر: 1-87
- تاریخ: 25 اگست 2006
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > منتقل شدہ فی عبادات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مدارس دینیہ میں مستحق طلبا و طالبات کے لیے لوگ زکوٰة و صدقات اور خیرات وغیرہ دیتے ہیں۔ ان کو کئی طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک یہ ہے کہ مدرسہ کے ذمہ دار مہہتمم و ناظم وغیرہ وصول کر کے رسید جاری کر دیتے ہیں اور پھر طلبا سمیت مدرسہ کے جملہ اخراجات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ طلبا کو رقم وغیرہ ملک میں دیتے ہیں پھر کھانے پینے اور دیگر ضروریات مدرسہ کے لیے طلبا سے وصول کرتے ہیں ۔ تیسرا یہ کہ طلبا سے فارم پر یا درخواست پر یہ لکھوا لیا جاتا ہے کہ ہماری طرف سے مہہتمم صاحب یا کوئی استاد بطور وکیل کے وصول کرے اور پھر ہماری ضروریات کے لیے حسب ضرورت خرچ کرے۔
بعض دفعہ طلبا کا نام لیے بغیر مطلق مدرسہ کے لیے کوئی رقم وغیرہ دیتے ہیں۔ دریافت طلب یہ ہے کہ صدقات، خیرات وغیرہ کو طلبا کے لیے اور مدرسہ کی جملہ ضروریات کے لیے استعمال کرنےکا شرعی طریقہ کار کیا ہے؟ کیا مذکورہ بالا طریقوں میں سے کوئی اختیار کرنا درست ہے؟ اور اب تک جو جو رقم وغیرہ استعمال کی گئی مذکورہ طریقوں یا اس کے علاوہ کسی اور طریقہ سے تو اس کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
زکوٰة، صدقات، خیرات وغیرہ مدرسہ کی جملہ ضروریات میں استعمال کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مہہتمم ہر طالب علم کا وظیفہ مقرر کر دے جو طالبعلم کے لیے مقرر کردہ کسی وکیل کو دے دیا جائے یہ وکیل مدرسہ کا کوئی معتبر اور دیندار ناظم ہوسکتا ہے پھر اس وظیفہ میں سے طالبعلم کے مدرسہ میں قیام ، کھانے اور تعلیم کے اخراجات کی مد میں کچھ حصہ وصول کر کے باقی ماہانہ وظیفہ کے طور پر طالب علم کو دے دیا جائے۔ مثلاً طالب علم کو آٹھ سو روپے دیے اور ان میں سے ساتھ سو روپے مذکورہ اخراجات کی مد میں وصول کر لیے اور سو روپے اس کے پاس چھوڑ دیے۔
قیام کے اخراجات میں بجلی، پانی ، گیس ، مدرسہ کے خدمتی عملہ کی تنخواہیں اور مدرسہ کی تعمیر وغیرہ کے اخراجات کے خرچے اور کتب خانہ کے اخراجات نکالے جاسکتے ہیں۔
اب تک جو طریقہ اختیار کیا اس کی بحث میں مت الجھیں۔ آگے کے لیے اصلاح کریں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved