• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مدرس کی تنخواہ ضبط کرنا جائز نہیں

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ انتظامیہ والے مدرسے سے کبھی کسی مدرس کو فارغ کرتے ہیں، اکثر سال کے آخر میں فارغ کرتے ہیں، کبھی کبھار سال کے درمیان میں فارغ کرتے ہیں تو ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دیتے ہیں۔ اگر کوئی مدرس سال کے درمیان میں از خود چلا جاتا ہے تو کیا ہم ایک ماہ کی تنخواہ ضبط کر سکتے ہیں؟ اور اس ضبط شدہ تنخواہ کو مدرسے میں استعمال کرسکتےہیں؟ کیونکہ یہاں دارلافتا سے ایک فتوے میں کمپنیوں کے لیے ایسی صورت میں تنخواہ ضبط کرکے رفاہی کام میں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ کیا ہمارے لیے بھی اجازت ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک ماہ کی تنخواہ ضبط کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ مالی جرمانہ ہے جو کہ جائز نہیں،لف شدہ فتوے میں کمپنیوں کے لئے اجازت اس وجہ سے دی گئی ہے کہ کمپنیوں کے لئے ایک ماہ کی تنخواہ ضبط کرنے کا حکومتی قانون موجود ہے اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق حاکم کو مالی جرمانہ لینے کی گنجائش ہے بشرطیکہ اسے رفاہی کاموں میں استعمال کرے، اپنی ذاتی ملکیت نہ بنائے،جبکہ ہماری معلومات میں مدارس کےبارےمیں ایساکوئی قانون موجودنہیں،اگراسکےبارےمیں بھی ایساکوئی قانون ہوتوگنجائش دی جاسکتی ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved