- فتوی نمبر: 11-265
- تاریخ: 24 مارچ 2018
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
انجمن خالد مسجد کے تحت تین شعبے کام کر رہے ہیں، مسجد، تعمیر مسجد، مدرسہ اور ڈسپنسری۔ انجمن کی طرف سے ایک ڈبہ نصب کیا گیا ہے۔ جس پر ’’زکوۃ برائے مدرسہ و ڈسپنسری‘‘ کے الفاظ تحریر کئے گئے ہیں، (اس میں یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ مدرسہ کی مد میں کتنی زکوۃ آئی اور ڈسپنسری کی مد میں کتنی ہے) نیز ڈبے کے علاوہ ویسے بھی لوگ براہ راست ڈسپنسری اور مدرسہ کے نام پر زکوۃ کی رقم دیتے ہیں۔ اب تک اس مد میں کافی رقم جمع ہو چکی ہے۔
انجمن کے تحت قائم مکتب/ مدرسہ میں حفظ و ناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے جہاں صرف مقامی طلبہ ہی پڑھنے آتے ہیں۔ نیز ڈسپنسری میں مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے، جہاں کسی کا مستحق زکوۃ ہونا معلوم نہیں کیا جاتا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ انجمن کو کافی لوگ زکوۃ کی رقم دیتے ہیں جب کہ انجمن کے پاس مدرسہ میں مستحق طلبا نہیں ہیں، اور ڈسپنسری میں مریض کا اب استحقاق معلوم تو کیا جاتا ہے لیکن زکوۃ کی رقم کو خرچ کرنے کے حوالے سے مکمل انتظام نہیں ہے۔ اب انتظامیہ چاہتی ہے کہ زکوۃ کی مد میں جمع شدہ رقم باہر کے مستحق زکوۃ لوگوں (کا استحقاق معلوم کرنے بعد ان) میں تقسیم کی جائے۔ اور مستحقین کے حالات کے اعتبار سے رقم دینے کی ایک حد مقرر کی جائے۔
1۔مذکورہ بالا صورتحال کے پیش نظر آیا مدرسہ اور ڈسپنسری کی مد میں جمع کی گئی زکوۃ کی رقم باہر کے مستحق لوگوں کو دی جا سکتی ہے یا نہیں ؟
2۔ آئندہ کے لیے کیا ایسی صورت میں ڈبہ پر ’’زکوۃ برائے مدرسہ و ڈسپنسری‘‘ کی بجائے ’’زکوۃ برائے مستحقین‘‘ یا محض ’’زکوۃ‘‘ لکھنے کی صورت میں اس رقم کو عام مستحقین زکوۃکو دینا شرعاً درست ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ مدرسہ اور ڈسپنسری کی مد میں زکوۃ کی جو رقم اب تک جمع ہو چکی ہے وہ مدرسہ کے طلباء اور مریض لوگوں کو دینا ضروری ہے۔ انجمن کے تحت مدرسے میں اگر ضرورت نہیں تو کسی دوسرے مدرسے میں دے دیں اسی طرح اگر انجمن کے تحت ڈسپنسری میں زکوۃ کی رقم کو شرعی اصولوں کے مطابق خرچ کرنے کا انتظام تسلی بخش نہیں اور نہ ہی انجمن کو قدرت ہے کہ وہ اس نظام کو شرعی اصولوں کے مطابق کر سکیں تو ایسی صورت میں وہ رقم دیگر مستحق زکوۃ مریضوں کو دے سکتے ہیں غرض یہ رقم مدرسے کے طلباء یا مستحق زکوۃ مریضوں پر ہی خرچ کی جائے عام مستحقین کو دینا درست نہیں۔
نوٹ: زکوۃ کی رقم چونکہ مدرسہ اور ڈسپنسری دونوں کے نام سے جمع ہوئی ہے اس لیے آدھی رقم مدرسے کو اور آدھی رقم مستحق زکوۃ مریضوں کو دیدی جائے۔
۲۔ درست ہو گا
امداد الاحکام3/189 میں ہے:
سوال :کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک گائوں میں مدرسہ اسلامیہ کچھ عرصہ سے قائم کیا گیا تھا اب عرصہ چھ ماہ سے وہ مدرسہ اسلامیہ بوجہ نہ ہونے طلبہ کے موقوف ہو گیا ہے، اب آئندہ بھی کوئی امید قائم ہونے مدرسہ کی نہیں ہے اس مدرسہ مذکورہ بالامیں جو کہ روپیہ جمع تھا چندہ وغیرہ کی صورت کا، اس میں سے اس وقت دو سو روپیہ باقی ہے ۔اس واسطے گزارش ہے کہ یہ روپیہ دوسری جگہ مسجد یا کنواں وغیرہ پر صرف کرسکتے ہیں یا کہ نہیں کر سکتے؟اس کی اگر کوئی صورت یا کوئی حیلہ بموجب شریعت کے ہو تو آپ وہ صورت بتلادیں ۔اللہ تعالی آپ کو اس کا ر خیر کا اجر عظیم عطافرمائیگا۔ آمین
جواب:چندہ دینے والے اگر زندہ ہوں تو چندہ ہر شخص کا اس کو واپس کر دیا جائے پھر وہ جہاں چاہے لگائے یا اس کی اجازت سے جس جگہ وہ کہے لگا دیا جائے ،البتہ اگر اس چندہ میں کوئی رقم زکوۃ و صدقہ فطر و فدیہ صلوۃ وغیرہ صدقات واجبہ کی ہو تو اس کے متعلق استفسار کی ضرورت نہیں اس کو کسی دوسرے مدرسہ کے طلبہ فقراء میں صرف کر سکتے ہیں کیونکہ بظاہر تعین طلبہ مدرسہ مذکورہ سے نفی غیر مراد نہیں۔
٭ حضرت حکیم الامت کے نزدیک چندہ والوں سے پوچھنے یا ان کو واپس کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کسی دوسرے قریب مدرسہ میں صرف کر دیا جائے
© Copyright 2024, All Rights Reserved