- فتوی نمبر: 11-23
- تاریخ: 26 جنوری 2018
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
ایک مدرسہ میں امتحان کے موقع پر طلبا ء میں اعلان کیا گیا کہ امتحان میں موبائل لانا منع ہے اولا تو طلباء موبائل لائیں ہی نہ، اگر لائیں تو دفتر میں جمع کروا کر آئیں۔دفتر میں جمع کروانے کی تر تیب یہ تھی کہ دفتر والوں نے موبائیلوں کیلئے ایک طاقچہ مقرر کردیا تھا ،جو طالب علم بھی موبائل لاتا اسے کہا جاتا کہ اس طاقچہ میں رکھ دو ،طلباء از خود اس طاقچہ میں اپنے موبائل رکھتے اور جاتے وقت اٹھاتے رہے۔ایک روز ایک طالب نے جاتے وقت موبائل نہ ملنے کا دعو ی کیا ،اور اپنے موبائل کی موجودہ قیمت 20000 بتلائی۔ موبائل گم ہو جانے کی وجہ سے وہ طالب علم مدرسہ سے تاوان طلب کررہا ہے ۔
واضح رہے کہ مدرسہ نے طلباء میں یہ اعلان نہیں کیا تھا کہ ہم موبائل کے ذمہ دار ہوں گے ۔سوال یہ ہے کہ کیا مدرسہ موبائل کا تاوان ادا کرنے کا ذمہ دار بنتا ہے؟
مزید وضاحت :مذکورہ طالبعلم عرصہ دراز سے مدرسہ میں تعلیم حاصل کررہا ہے آج تک اس کی کوئی ایسی حرکت سامنے نہیں آئی جس کی بنیاد پر اسے اپنے دعوی میں جھوٹا سمجھا جائے ۔
سائل:محمدیوسف منور
وضاحت مطلوب ہے کہ:
مذکورہ طریقے کے مطابق موبائل رکھنے اور واپس جاتے وقت لے جانے کا مذکورہ نظم کس نے طے کیا تھا ؟انتظامیہ نے یا کسی ایک فرد نے؟
جواب وضاحت :
مذکورہ نظم انتظامیہ نے اپنے مشورہ سے طے کیا تھا ؟کسی فرد نے ذاتی طور پر اعلان کہیں کیا تھا اور نہ ہی طاقچہ میں رکھنے کا انفرادی فیصلہ تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں موبائل مدرسہ کے پاس ودیعت تھا اور ودیعت کی چیز کی حفاظت اس کی نوعیت کے مطابق کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ اگر حفاظت میں کوتاہی ثابت ہوجائے تو ودیعت رکھنے والے کو تاوان دینا پڑتا ہے۔چونکہ 20000روپے والے موبائل کی حفاظت کا طریقہ محض ایک طاقچہ میں رکھوادینا نہیں ہے کہ جہاں تک ہر آنے جانے والے کی رسائی ہو اس لئے مدرسہ کے ذمہ اس موبائل کا تاوان آئے گا۔لیکن یہ تاوان عمومی چندہ سے ادا نہیں کیا جاسکتا ،لہذا یا تو خاص تاوان کے لئے معطیین کو بتا کر چندہ کریں یاانتظامیہ اپنے طور پر ادا کریں۔
عالمگیر ی 4/338 میں ہے :
والودیعة تارة تکون بصریح الایجاب والقبول وتارة بالدلالة…والدلالة اذا وضع عنده متاعا ولم یقل شیئااو قال هذا ودیعة عندک وسکت الاخر صار مودعا حتی لو غاب الآخر فضاع ضمن لانه ایداع وقبول عرفا.
ایضا… رجل فی یديه ثوب قال له رجل اعطنی هذاالثوب فاعطاه ایاه کان هذا علی الودیعة کذا فی الظهیرية.
ایضا…لو قام واحد من اهل المجلس وترک کتابه او متاعه فالباقون مودعون فيه حتی لوترکوا وهلک ضمنوا لان الکل حافظون…الخ
في فتاوى أهل سمرقند رجل دخل بدابته خانا وقال لصاحب الخان أين أربطها فقال هناك فربطها وذهب ثم رجع فلم يجد دابته فقال صاحب الخان إن صاحبك أخرج الدابة ليسقيها ولم يكن له صاحب فصاحب الخان ضامن كذا في المحيط.
فتاوی عالمگیری 4/339 میں ہے:
وإذا دخل رجل الحمام وقال لصاحب الحمام أين أضع الثياب فقال صاحب الحمام ثمة فوضع فدخل الحمام ثم خرج رجل آخر وذهب بثيابه فصاحب الحمام ضامن
© Copyright 2024, All Rights Reserved