- فتوی نمبر: 30-346
- تاریخ: 12 اکتوبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
عرض ہے کہ بندہ مولوی عتیق الرحمن سن2022،2023 الہلال مسجد چوبرجی پارک شعبہ کتب میں بحیثیت مدرس خدمت سر انجام دے رہا تھا تاہم جولائی2023 کو مدرسے سے استعفاء دیا اور20 جولائی تک مدرسے میں باقاعدگی سے ضابطے کے تحت خدمت سر انجام دیتا رہا ۔تاہم ایک ماہ پہلے تحریری اطلاع نہ دے سکا البتہ زبانی طور پر اعلی حکام اس سے آگاہ تھے۔لہذا اب بندہ کی تنخواہ ماہ جولائی کی روک لی گئی ہے آپ سے درخواست ہے کہ شرعی طور پر میرا جامعہ سے وظیفہ لینا بنتا ہے یا نہیں ؟با حوالہ مطلع فرمائیں !
مدرسے کا مؤقف:
ایڈمن آفس کے رکن*** صاحب نے دارالافتاء آکر درج ذیل مؤقف دیا:
تقرری کرتے وقت فارم دیتے ہیں جس میں تفصیلاً باتیں لکھی ہوتی ہیں اور پہلے ہم صرف دستخط کرواتے تھے لیکن اب مزید تاکید کے لیے دستخط کے ساتھ انگوٹھے کے نشان کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے، تقرری فارم کے اندر یہ شق بھی ہے کہ ” استعفیٰ دینے سے ایک ماہ قبل ادارے کو مطلع کرناضروری ہے " نیز فارم کے علاوہ تقرری کرتے وقت زبانی بھی تفصیل سے سارے اصول وضوابط بیان کیے جاتے ہیں اور ضروری دستاویزات درخواست کے ساتھ لف کرنے کا کہا جاتا ہے۔
زبانی بات میں اس بات کو بھی تاکید اذکر کیا جاتا ہے کہ اگر پیشگی اطلاع نہ کی تو ایک ماہ کا وظیفہ کاٹ لیا جائے گالہذا اس وجہ سے موصوف کا وظیفہ اداء نہیں کیا گیا۔ نیز 22 جون 2023 تا 17 جولائی 2023 ادارے میں گرمیوں اور عید الا ضحی کی چھٹیاں تھیں، موصوف چھٹیوں سے پہلے آتے رہے اور چھٹیوں کے بعد 20 جولائی 2023 تک صرف کچھ دن حاضر ہوئے اور تنخواہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسا دیگر کمپنیوں میں ہوتا ہے کہ اگر چھٹیوں میں کوئی شخص ملازمت ترک کر دے تو اس کو چھٹیوں کا وظیفہ نہیں ملتا اور اگر چھٹیوں کے بعد ایک دن بھی حاضر ہو جائے اور پھر ملازمت ترک کرے تو اس کو چھٹیوں کا وظیفہ دیا جاتا ہے، موصوف نے بھی یہی طریقہ اپنایا ہے۔
وضاحت مطلوب ہے: مولوی صاحب کے تقرری فارم کی کاپی ساتھ لف کریں، نیز مدرسہ کی طرف سے مولوی صاحب سے زبانی بات کس نے کی تھی؟ کیا اس بات کو مولوی صاحب تسلیم کرتے ہیں؟ اگر تسلیم نہیں کرتے تو مدرسہ والوں کے پاس اس کے بتانے کا کیا ثبوت ہے؟ اگر مدرسے والوں کے پاس ثبوت نہیں تو کیا مولوی صاحب اس بات پر حلف دینے کے لیے تیار ہیں کہ انہیں یہ بات نہیں بتائی گئی؟
جواب وضاحت از مولوی صاحب: مجھے یاد نہیں کہ تقرری کے وقت زبانی بات میں اس کا تذکرہ ہوا تھا یا نہیں۔
جواب وضاحت از مدرسہ: مولوی صاحب کے فارم کی کاپی ساتھ لف ہے۔[زبانی بات کس نے کی تھی اس کا جواب مدرسہ کی طرف سے موصول نہیں ہوا ]
تقرری فارم کی متعلقہ عبارت:
11۔ اگر مجھے اپنی ذاتی مجبوری کی بناء پر مدرسہ چھوڑنا پڑا تو ایک ماہ پہلے مطلع کروں گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مدرسہ والوں کا یہ شرط لگانا کہ "اگر استعفاء سے ایک ماہ قبل پیشگی اطلاع نہ کی تو ایک ماہ کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی” جائز نہیں کیونکہ یہ تعزیر بالمال ہے جوکہ جائز نہیں لہٰذا اس کی وجہ سے تنخواہ روکنا جائز نہیں ۔البتہ مذکورہ صورت میں مولوی صاحب چھٹیوں کی تنخواہ کے مستحق نہ ہوں گے کیونکہ چھٹیوں کی تنخواہ کا استحقاق اسی وقت ہوتا ہے جب چھٹیوں کے بعد بھی ملازم کام کے لیے تیار ہو اور کسی خاص مجبوری کے بغیر مدرسے کو نہ چھوڑے ورنہ تو ملازمین چھٹیوں کی تنخواہ حاصل کرنے کے لیے اس کو ایک حیلہ بنا لیں گے کہ مدرسہ چھوڑنے کا ارادہ تو پہلے سے تھا البتہ چھٹیوں کی تنخواہ حاصل کرنے کے لیے ایک دو دن مدرسے میں آگئے اور پھر چھوڑ کر چلے گئے ، ظاہر ہے کہ اس صورت میں مدرسے کا نقصان ہے البتہ اگر اچانک کوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ جس کی وجہ سے اجارے کو باقی رکھنا ممکن نہ ہو تو الگ بات ہے ۔مذکورہ صورت میں ملازم کی طرف سے کوئی ایسا عذر سامنے نہیں آیا کہ جس کی وجہ سے چھٹیوں کے بعد اس کے لیے اجارے کو باقی رکھنا ممکن نہ ہو لہٰذا مذکورہ ملازم چھٹیوں کی تنخواہ کا مستحق نہیں۔البتہ چھٹیوں کے بعد جتنے دن اس نے کام کیا ہے اتنے دنوں کی تنخواہ اس کا حق ہےاسے روکنا جائز نہیں۔
شامی(6/98) میں ہے :
(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ
البحر الرائق (5/ 44)میں ہے :
«وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ»
امداد الاحكام (3/561)ميں ہے:
سوال:۔ در مدرسۃ از مدارس اسلامیہ مدرس قدیم یک سال از مہتمم صاحب اجازت گرفت ، بجائش دیگر معلم را جانشین جہت تعلیم کرد، چون مورخہ ۲۰؍شعبان امتحان سالانہ شد مہتمم بجانب مدرس جدید کہ سی روپیہ اجرت ماہ شعبان مرسول دوم اینکہ آئندہ سال را تو یقینًا امیدوار نباشی چرا کہ تو یک سال را مدرس بودی بجائے مدرسِ قدیم۔۔۔۔۔
الجواب قال فی الدر: وهل یاخذ ایام البطالة کعید ورمضان لم اره وینبغی الحاقه ببطالة القاضی واختلفوا فيها والاصح انه یأخذ لانها للاستراحة اشباه من قاعدة العادة محکمة اھ۔ (ج؍۳،ص؍۵۸۷، مع الشامی) اس سے معلوم ہوا کہ تعطیل کے زمانہ میں استحقاقِ تنخواہ کا سبب یہ ہے کہ استراحت کے لئے یہ تعطیل ہوتی ہے اور یہ علت اس شخص میں موجود ہوسکتی ہے جو تعطیل سے پہلے معزول نہ ہوا ہو، دوسرے شامی نے اس کا مبنی عرف پر کیا ہے جیسا کہ درمختار میں بھی اس کو قاعدۂ عادت سے نقل کیا ہے اور ہمارے یہاں عرف یہ ہے کہ ایامِ تعطیل کی تنخواہ کا مستحق وہی مدرس ہوتا ہے جو بعد تعطیل کے اپنے کام پر برقرار رہے اس کا متقضیٰ بھی یہی ہے کہ صورتِ مسئولہ میں یہ مدرس تنخواہِ رمضان کا مستحق نہیں، اور مہتمم کے قول میں سال سے اکثر حصہ سال کا مراد ہوسکتا ہے جس سے دخول رمضان لازم نہیں آتا، اگر مقام سوال کا عرف اس بارہ میں ہمارے عرف کے خلاف ہو تو سوال پھر کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved