- فتوی نمبر: 34-195
- تاریخ: 15 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > متفرقات عبادات
استفتاء
میں نے اپنے مدرسے کے بچوں کا آپ کو ایک وکالت نامہ ارسال کیا ہے میں بحیثیت مدرسے کے مہتمم کے یہ وکالت نامہ بچوں سے کروا کر زکوۃ وغیرہ فنڈ صدقات وغیرہ ان کے وکیل بن کے لوگوں سے وصول کر سکتا ہوں تاکہ ان فنڈ زکوۃ وغیرہ کو مدرسے کی ضروریات معلمات معلمین کی وظیفوں کی مد میں خرچ کیا جا سکے یہ وکالت نامہ درست ہے؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ بچے سارے ہمارے مدرسے میں شہری ہیں رہائشی بچے نہیں ہیں۔
فیس کنسیشن کی شرائط:
1۔بچے کی سالانہ حاضری 90 فیصد ہو نالازمی ہے۔
2۔طے شدہ فیس مقررہ وقت (10) تاریخ سے پہلے جمع کروانا لازمی ہے تاخیر کی صورت میں مکمل فیس جمع کروانی ہوگی اور فیس میں رعایت ختم کر دی جائے گی۔
3۔ بچے کی سالانہ تعلیمی کارکردگی 5 8 فیصد ہونی چاہیے ۔۔
4۔اگر آپ 70 فیصد سے کم نہیں اداکرتے ہیں اور آپ مستحق زکوة ہیں تو ادارہ آپکی طرف سے زکوٰۃ لینے کا حقدار ہوگا، چنانچہ اگر آپ متفق ہیں تو درج ذیل عبارت پڑھ کر ادارے کو زکوۃ وصول کرنے کی اجازت دے دیں:
” میں مدرسے کے مہتم کو یا جس کو وہ اجازت دیں اپنی طرف سے زکوۃ وغیرہ کی رقوم وصول کرنے کا وکیل بناتا ہوں اور میری طرف سے ان کو اس بات کا اختیار ہو گا کہ وہ زکوٰۃ وغیرہ کی رقوم کو مدرسہ کے مصارف میں جہاں مناسب سمجھیں خرچ کریں یا مدرسہ پر وقف کر یں”
5۔ فیس میں یہ رعایت ایک سال کے لیے ہے اس کے بعد نئے سرے سے فیس کنسیشن فارم فل کرنا ہوگا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہماری تحقیق کے مطابق مذکورہ وکالت نامہ بھی تملیکِ زکوٰۃ کا ایک حیلہ ہے جسے خاص مجبوری کے بغیر اختیار کرنا درست نہیں ۔ نیز اس میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں مہتمم کو ( یا جس کو وہ اجازت دیں اسے) محدود اور متعین مستحق زکوۃ طلباء یا ان کے والدین کی طرف سے زکوۃ وغیرہ کی رقوم وصول کرنے کا وکیل بنایا گیا ہے اور پھر اسے مدرسہ کے مصارف میں مہتمم کی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کی یا مدرسہ پر وقف کرنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ ہماری تحقیق میں مہتمم مدرسہ طلباء کے وکیل بنائے بغیر خود بخود غیر متعین اور غیر محدود طلباء کا وکیل ہے اسے محدود ومتعین طلباء کا وکیل بنانے میں ان طلباء کی حق تلفی ہے جو غیر متعین اور غیر محدود ہیں اور فی الحال مدرسے میں موجود /داخل نہیں ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ مدرسہ کے زکوۃ و صدقات وغیرہ کے فنڈ میں صرف موجود طلباء ہی کا حق نہیں کہ صرف ان سے اخذ و صرف کا وکالت نامہ لے کر تمام فنڈ کو مصارف مدرسہ میں صرف کر دیا جائے بلکہ اس میں ان غیر محدود اور غیر متعین طلباء کا بھی حق ہے جو فی الحال موجود نہیں۔
لہذا ہماری رائے میں وکالت نامہ کا صرف یہ طریقہ درست ہے کہ اولاً مہتمم قیام، طعام اور تعلیمی اخراجات کی مَد میں طلباء پر ماہانہ فیس مقرر کردے اور پھر فیس کے بقدر یا اس سے کچھ زائد رقم مستحق طالبعلم کو مدرسے کے زکوٰۃ فنڈ میں سے دیدی جائے اور پھر فیس کے بقدر رقم اس سے واپس کے لی جائے اس طریقہ کار میں ایک آسانی یہ اختیار کی جاسکتی ہے کہ شروع سال میں طلباء سے ایک فارم پر دستخط کرالیے جائیں کہ وہ مدرسہ کے مقرر کئے ہوئے ایک ناظم کو اپنا وکیل مقرر کرتے ہیں جو مدرسے کے زکوٰۃ فنڈ سے ان کا وظیفہ وصول کرے اور اس میں سے مدرسہ کے مطلوبہ اخراجات ادا کرے۔
تنبیہ: دستخط کرانے کے لئے فارم میں یہ شق بھی ضروری ہوگی کہ اگر دوران ماہ وہ طالب علم مدرسہ چھوڑ گیا یا کسی وجہ سے اس کا اخراج کیا گیا تو بقیہ رقم مدرسہ میں چندہ تصور ہوگی۔ نیز دوران ماہ اگر کسی طالب علم کا انتقال ہو جائے تو حساب لگا کر فیس میں سے باقی ایام کی رقم اس کے وارثوں کے حوالے کر دی جائے ۔
نمونہ کے طور پر ہمارے ذکر کردہ وکالت نامہ کی عبارت یوں ہوگی:
“من مسمیٰ ………… ولدیت ………….. مسلمان، عاقل، بالغ اقرار کرتا ہوں کہ میں سید یا ہاشمی نہیں ہوں اور شرعی قاعدے کی رُو سے زکوٰۃ لینے کا مستحق ہوں، لہٰذا میں الحمد قرآن اکیڈمی کے مہتمم کو وکیل بناتا ہوں کہ جب تک میں مدرسہ ہذا میں زیر تعلیم رہوں اس وقت تک وہ خود یا اپنے مقرر کردہ ناظم کے ذریعے مدرسہ کے زکوٰۃ وصدقات واجبہ فنڈ میں سے میری فیس کے بقدر رقم وصول کرکے میری طرف سے میری فیس کی مَد میں جمع کرادیں۔
دستخط: ……………..”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved