• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مدرسے کے منتظمین کا مدرسہ سے کھانے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں:

1۔ مدرسے کے منتظمین (یعنی اہل شوریٰ وغیرہ) مدرسے کے وقف کھانے میں سے کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

 

زکوٰۃ کی رقم سے مدرس کی تنخواہ کی ادائیگی

2۔ اور کیا مدرس کو تنخواہ زکوٰۃ کی فنڈ سے دے سکتے ہیں؟ اور اگر دے سکتے ہیں تو کیا صرف مستحقین کو دے سکتے ہیں یا غیر مستحق بھی اپنی تنخواہ زکوۃ کے مال سے لے سکتا ہے؟

 

تملیک کا طریقہ

3۔ اگر زکوٰۃ کا مال آتا ہے مدرسہ میں تو اس کی تملیک کی کیا صورت ہو گی؟ کیا ایک مقررہ شخص اس کا مالک بن سکتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ اگر مشاورت سے اصول میں یہ بات طے کر لی جائے تو کھا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔

2۔ زکوٰۃ کی رقم تنخواہ میں دینا جائز نہیں۔

3۔ مدرسے میں آنے والی زکوٰۃ کی تملیک کی صورت یہ ہے کہ

مہتمم  ہر طالب علم پر اس کے تعلیمی اخراجات کی مد میں فیس مقرر کر دے، پھر جو طلباء مستحق زکوٰۃ ہوں ان کے لیے مدرسہ کی فیس کی مقدار سے کچھ زائد مقدار میں وظیفہ مقرر کر دے مثلاً اگر 800 روپے فیس ہو تو 1000 روپے وظیفہ کر دے پھر یہ وظیفے کی رقم زکوٰۃ  کی رقم میں سے خود طالب علم کو یا اس کے مقرر کردہ وکیل کو جو کہ مدرسہ کا ناظم بھی ہو سکتا ہے، دیدی جائے اور پھر اس میں سے فیس کے بقدر رقم کاٹ لی جائے اور باقی رقم طالب علم کے پاس رہنے دی جائے۔

اور جو طلباء مستحق زکوٰۃ نہ ہوں تو وہ فیس از خود ادا کریں۔ اور اگر یہ طلباء بھی مستحق زکوٰۃ نہ ہونے کے باوجود از خود ادا کرنے کے متحمل نہ ہوں (مثلاً کوئی طالب علم سید ہو اور فیس ادا کرنے کا متحمل نہ ہو) تو ایسے طلباء کے لیے مدرسہ صدقات واجبہ کے علاوہ میں سے وظیفہ مقرر کر دے اور فیس کے بقدر کاٹ کر باقی رقم طالب علم کے پاس چھوڑ دے۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved