- فتوی نمبر: 13-62
- تاریخ: 10 مارچ 2019
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی صاحب مسئلہ ذیل کی وضاحت فرمادیں
مدارس اسلامیہ میں مدرسین کا تقرر شوال سے ہوتا ہے جبکہ سالانہ امتحانات شعبان سے قبل ختم ہو جاتے ہیں اگر کسی ادارہ کے مہتمم صاحب رجب کے آخر میں مدرسہ کے امتحانات مکمل ہونے پر ایک ماہ یعنی شعبان کی پیشگی تنخواہ اداکرکے معذرت کرلیں تو کیا رمضان کی تنخواہ دینا بھی لازم ہو گا مدرس صاحب کاکہنا ہے کہ درمختار کی مندرجہ ذیل عبارت کی بنا پر رمضان کے مہینے کی تنخواہ مہتمم صاحب کے ذمہ واجب ہے ۔عبارت درج ذیل ہے:
اما لو قال يعطي المدرس کل يوم کذا فينبغي ان يعطي يوم البطالة المتعارفة بقرينته ماذکره في مقابلة من البناء علي العرف فحيث کانت البطالة معروفة في يوم الثلثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الاخذ وکذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحريردرس ۔۔۔۔قال الفقية ابوالليث ومن يأخذ الاجر من طلبة العلم في يوم لا درس فيه ارجو ان يکون جائز ا وفي للحاوي اذا کان مشتغلابالکتابة والتدريس ۔۔۔۔۔۔(شامي:416/3)
امید ہے باحوالہ وضاحت فرمادیں گے۔
وضاحت مطلوب ہے:
جو مدرس اور مہتمم کا اپس میں اس بارے میں معاہدہ ہوا تھا وہ بمع دستخط کے بھیجیں تاکہ غور کیا جائے ۔اس کے بغیر جواب دینا ممکن نہیں ۔
جواب وضاحت :
مہتم اور مدرس کے درمیان کے کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا۔ادارہ چونکہ ابتدائی مراحل میں ہے اور رابعہ کے اسباق شروع کروانے کے بعد یہ بات تجربہ میں آئی کے چار درجوں کے بجائے صرف اولی سے ہی طلبہ لیے جائیں لہذا تمام مدرسین کو جو عمومی طور پر تعلیمی سال شعبان تک مکمل ہو جاتا ہے تو مدرس کو رجب میں ہی مدرسہ کے اس فیصلہ کے بارے میں اطلاع دے کر رجب میں ہی شعبان کی بھی پیشگی تنخواہ (مشاہرہ)دے دیاگیا ۔جبکہ مدرس اب شوال کے آخرمیں جامعۃ الحمید کا یہ فتوی لے کرآئے ہیں فتوی درج ذیل ہے:
’’کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں :
کہ اگر مدرس دینی مدرسہ میں شعبہ کتب میں تدریس کررہا ہو اور رجب یا شعبان میں مہتمم صاحب اس کو ادارہ سے فارغ کردیں تو کیا وہ مدرس رجب ،شعبان اور رمضان کی تنخواہوں کا مستحق ہے یا نہیں ؟فقہ حنفی کی روشنی میں جواب دیں
بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں مدرس چھٹیوں کے مہینوں کی تنخواہ کا مستحق ہے ۔کیونکہ یہ مسانہہ بصورت مشاہرہ ہے یعنی پورے سال کا عقد ہے۔لہذا اس کا اتمام لازم ہے
اما لو قال يعطي المدرس کل يوم کذا فينبغي ان يعطي يوم البطالة المتعارفة بقرينة ماذکره في مقابلة من البناء علي العرف فحيث کانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل ۔۔۔۔قال الفقيه ابو الليث ومن ياخذ الاجر من طلبة العلم في يوم لا درس فيه ارجو ان يکون جائز ا وفي الحاوي اذا کان مشتغلا بالکتابة والتدريس (شامي:416/3)
کتبه محمد امير معاويه دارالافتاء جامعة الحميد لاهور3 ذي القعده 1439ه‘‘
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
رمضان کی تنخواہ کا استحقاق اس وقت ہوتا ہے جب عقد اجارہ رمضان سے پہلے کسی قابل اعتبار عذر کی وجہ سے ختم نہ کردیا گیا ہو اور درمختار کی عبارت اس صورت سے متعلق ہے اگر عقد اجارہ کسی قابل اعتبار عذر کی وجہ سے رمضان سے پہلے ختم کردیا گیا ہو تو اس صورت میں رمضان کی تنخواہ کا استحقاق نہیں ۔نیز عقد اجارہ خواہ ماہانہ ہو یا سالانہ ہو اس کا اتمام بھی اسی صورت میں لازم ہوتا ہے جبکہ عقد اجارہ ختم کرنے کا کوئی قابل اعتبار عذر نہ ہو ۔مذکورہ صورت میں چونکہ اولی کے علاوہ باقی درجات کے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا اس لیے تمام اساتذہ کو رکھنے کی ضرورت نہ رہی تھی لہذا عقد اجارہ ایک قابل اعتبار عذر کی وجہ سے ختم کیا گیا ہے اور ایسی صورت میں رمضان کی تنخواہ کا استحقاق نہیں بلکہ شعبان کے مہینہ کی تنخواہ کا جواز بھی محل نظر ہے۔جامعۃ الحمید کے فتوے میں لزوم اتمام پر کوئی دلیل مذکور نہیں کہ جس پر غور کر کے کچھ کہا جاسکے۔
في رد المحتار9/ 136): )
و الحاصل أن کل عذر لا يمکن معه استيفاء المعقود عليه إلا بضرر يلحقه في نفسه أو ماله يثبت له حق الفسخ.
و في الفقه الإسلامي (5/ 3830):
العذر هو ما يکون عارضاً يتضرر به العاقد مع بقاء العقد و لا يندفع بدون الفسخ.
وفي شرح المجلة (2/ 560):
لو فات الانتفاع بالمأجور بالکلية سقطت الأجرة … و إن انهدمت الدار کلها فله الفسخ من غير حضرة رب الدار لکن الإجارة لا تنفسخ … و في إجارات شمس الأئمة: إذا انهدمت الدار کلها الصحيح أنه لا ينفسخ لکن سقط الأجر عنه فسخ أو لم يفسخ.
و فيه أيضاً (2/ 608):
إن أراد المستأجر فسخ الإجارة قبل رفع العيب الحادث الذي اخل بالمنافع فله فسخها في حضور الآجر و إلا فليس له فسخها بغياب و إن فسخها بغيابه دون أن يخبره لم يعتبر فسخه و کراء المأجور يستمر کما کان، أما لو فات المنافع المقصودة بالکلية فله فسخها بغياب الآخر أيضاً و لا تلزمه الأجرة فسخ أو لم يفسخ … و أما لو انهدمت الدار بالکلية فمن دون احتياج إلي حضور الآخر للمستأجر فسخها و علي هذه الحال لا تلزمه الأجرة.
وفي شرح المجلة (2/ 609):
إن العيب الحادث في المأجور کالموجود قبل العقد، لأن ما حدث من العيب يکون حدوثه قبل قبض ما بقي من المنافع المعقود عليها التي تحدث ساعة فساعة، فالفسخ في کل منهما أي البيع و الإجارة لا يحتاج فيه إلي القضاء أو الرضي لکن لا بد أن يکون بحضرة المؤجر أو المشتري و علمهما
© Copyright 2024, All Rights Reserved