- فتوی نمبر: 32-33
- تاریخ: 26 مارچ 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ضلع خوشاب کا رہنے والا ہوں میرے ماموں کی ملکیت میں ڈھائی ایکڑ زمین موجود ہے، ابھی زمین ٹھیکہ پر ہے اور ٹھیکہ کی رقم ان کی چار بہنوں میں تقسیم ہو رہی ہے، ماموں تقریبا 15 سال سے لاپتہ ہیں، ان کی شادی ہوئی تھی پھر کچھ عرصہ بعد طلاق ہو گئی تھی، ماموں کی کوئی اولاد نہ تھی، ان کو کچھ ذہنی مسئلہ بھی تھا، ماموں کی چار زندہ بہنیں ہیں جو ان کی وارث ہیں نانا ابو اور نانی امی ماموں سے پہلے فوت ہو چکے ہیں، ماموں کے سوتیلے اور سگے کافی چچا ہیں نانا کے والد نے تین شادیاں کی تھیں،اب سوال یہ ہے کہ
(1) ماموں کی فوتگی کا اندراج کروا کر وراثت کا انتقال بہنوں کے نام کروایا جا سکتا ہے؟ اگر فی الحال انتقال نہیں کروایا جا سکتا تو کتنا عرصہ انتظار کرنا ہو گا؟
(2) ٹھیکے کی رقم کا کیا جائے؟ کیا بہنوں کا اس رقم کو لینا درست ہے؟
(3) ماموں کی وراثت کس ترتیب سے تقسیم ہوگی؟ صرف ان کی چار بہنوں میں تقسیم ہوگی یا ماموں کے چچا لوگوں کو بھی حصہ ملے گا ؟
(4) اگر چچا وغیرہ کو بھی حصہ ملے گا تو وراثتی انتقال پر تقریبا دو لاکھ روپے خرچ ہوگا چچا لوگ وہ خرچ نہیں کریں گے وہ خرچ کس کے ذمے ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)مذکورہ صورت میں آپ کے لا پتہ ماموں کے ہم عمر لوگ جب تک حیات ہیں ان کی زمین اور باقی مال کو محفوظ رکھا جائے گا، اگر آپ کے ماموں اپنے ہم عمر لوگوں کے مرنے سے پہلے واپس آجائیں تو ان کا مال ان کو دے دیا جائے گا، اور اگر وہ اپنے ہم عمر لوگوں کے مرنے تک واپس نہ آئیں تو عدالت میں درخواست دے کر ان کی موت کا حکم حاصل کیا جائے گا، اس میں احتیاط ہے۔ اور اگر عدالتی کاروائی میں دشواری ہو تو عدالتی کاروائی کے بغیر ہی ان کے مال کو ان کے موجود ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے گا۔
اس کے بعد بھی اگر آپ کے ماموں واپس آ گئے تو ان کے مال میں سے جو کچھ خرچ ہو چکا ہو گا اس کا مطالبہ نہ ہو گا اور جو باقی ہو گا وہ ان کو واپس دیدیا جائے گا۔
(2) ٹھیکے کی رقم كا حكم بھی باقی مال کی طرح ہے لہذا اس کو بھی محفوظ رکھا جائے گا۔
(3) آپ کے ماموں کی وراثت ان کی چار بہنوں اور چچاؤں میں تقسیم ہو گی جس میں سے دو تہائی (66.66%) بہنوں کو ملے گا باقی ایک تہائی (33.33%) چچاؤں کے درمیان تقسیم ہوگا جس کی تفصیل چچاؤں کی تعداد بتا کر معلوم کی جا سکتی ہے۔
(4) وراثتی انتقال کا خرچہ تمام شرکاء کے ذمے ہو گا۔
سراجی (ص: 54) ميں ہے:
المفقود حي في ماله حتى لا يرث منه أحد و ميت في مال غيره حتى لا يرث من أحد و يوقف ماله حتى يصح موته أو تمضي عليه مدة، و اختلف الروايات في تلك المدة ففي ظاهر الرواية أنه إذا لم يبق أحد من أقرانه حكم بموته …………….فإذا مضت المدة فماله لورثته الموجودين عند الحكم بموته.
فتاوٰی شامی (456/6) میں ہے:
(وهو في حق نفسه حي) بالاستصحاب، هذا هو الأصل فيه (فلا ينكح عرسه غيره ولا يقسم ماله)…….. (وميت في حق غيره فلا يرث من غيره)….(ولا يستحق ما أوصى له إذا مات الموصي بل يوقف قسطه إلى موت أقرانه في بلده على المذهب) لأنه الغالب واختار الزيلعي تفويضه للإمام……..قلت وفي واقعات المفتين لقدري أفندي معزيا للقنية أنه إنما يحكم بموته بقضاء لأنه أمر محتمل فما لم ينضم إليه القضاء لا يكون حجة ( فإن ظهر قبله ) قبل موت أقرانه (حيا فله ذلك) القسط.(وبعده يحكم بموته في حق ماله يوم علم ذلك) أي موت أقرانه (فتعتد) منه (عرسه للموت ويقسم ماله بين من يرثه الآن و)
(قوله: وهو في حق نفسه حي) مقابله قوله الآتي وميت في حق غيره. وحاصله أنه يعتبر حيا في حق الأحكام التي تضره وهي المتوقفة على ثبوت موته ويعتبر ميتا فيما ينفعه ويضر غيره، وهو ما يتوقف على حياته؛ لأن الأصل أنه حي وأنه إلى الآن كذلك استصحابا للحال السابق والاستصحاب حجة ضعيفة تصلح للدفع لا للإثبات: أي تصلح لدفع ما ليس بثابت لا لإثباته.
قوله: (بقضاء الخ) هو أحد قولين. قال القهستاني: وفي الفاء من قوله: فتعتد عرسه دلالة على أنه يحكم بموته بمجرد انقضاء المدة فلا يتوقف على قضاء القاضي كما قال شرف الائمة. وقال نجم الائمة القاضي عبد الرحيم: نص على أنه يتوقف عليه كما في المنية اه، وما قاله شرف الائمة موافق للمتون سائحاني.
قلت: لكن المبتادر من العبارة أن المنصوص عليه في المذهب الثاني. ثم رأيت عبارة الواقعات عن القنية أن هذا: أي ما روى عن أبي حنيفة من تفويض موته إلى رأي القاضي نص على أنه إنما يحكم بموته بقضاء الخ.
قوله: (فإن ظهر قبله) هذه القبلية لا مفهوم لها وإن ذكرها الكثيرون سائحاني، ولذا قال في البحر: وإن علم حياته في وقت من الاوقات يرث من مات قبل ذلك الوقت من أقاربه اه. لكن لو عاد حيا بعد الحكم بموت أقرانه قال ط: أن الظاهر أنه كالميت إذا احيي والمرتد إذا اسلم، فالباقي في يد ورثته له و لا يطالب بما ذهب …….. تأمل.
(قوله: فله ذلك القسط) أي الموقوف له من الوصية وكذا الإرث كما علمت
امداد الاحکام (578/4) میں ہے:
’’حاصل یہ ہوا نمبر 1: صورت مسئولہ میں بعد موت اقران کے بدون قضاء قاضی کے ورثہ کا مال مفقود پر قبضۂ مالکانہ کر لینا جائز ہے على قول شرف الأئمة. و اخترناه في حق الأموال تيسيراً و أما في الزوجة فنختار قول نجم الأئمة احتياطاً في باب الفروج‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved