• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مہینے کے درمیان میں تقرری ہو تو مدرس کے لیے پورے مہینے کی تنخواہ لینے کا حکم

استفتاء

ایک مدرس کا  تقرر شعبہ کتب میں شوال کے آخری دس دنوں میں ہوا لیکن جب وظیفہ دیا گیا تو پورے ماہ کا دیا گیا تو کیا مدرس کے لیے پورا وظیفہ لینا جائز ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:مذکورہ  مدرسے  میں تنخواہ شمسی مہینوں کے اعتبار سے دی جاتی ہے یا قمری مہینوں کے اعتبار سے؟ نیز اگر شمسی مہینوں کے اعتبار سے دی جاتی ہے تو تقرری کے وقت شمسی مہینے کی کیا تاریخ تھی؟ نیز سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟

جواب وضاحت: (1) وظیفے دینا شمسی تاریخ کے مطابق ہے۔ (2) سائل کا اپنا مسئلہ ہے، خوف یہ ہے کہ جن ایام کی ڈیوٹی نہیں دی آیا ان ایام کا وظیفہ شرعاً حرام تو نہیں؟ (3) تقرری تقریباً 15 مئی کو ہوئی اور اسباق اور اوقات کی تعیین اس کے ایک ہفتے  بعد ہوئی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس کا مدار مدارس کے عرف پر ہے اگر مدارس کا عرف مذکورہ صورت میں پوری تنخواہ دینے کا ہو تو مذکورہ صورت میں پورا وظیفہ لینا درست ہے ورنہ درست نہیں، ہمارے دارالافتاء کے ساتھی مفتی حسیب صاحب اور ہمارے ایک متخصص  دانش ریاض نے مختلف مدارس کا اس  بارے میں عرف معلوم کیا تو اکثر بڑے مدارس مثلاً دارالعلوم کراچی، بنوری ٹاؤن اور جامعۃ الرشید ، بیت السلام میں اور ہمارے اپنے ادارے جامعہ دارالتقویٰ میں مذکورہ  صورت میں  پوری تنخواہ دینے کا عرف نہیں لہٰذا ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ صورت میں پوری تنخواہ لینا درست نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved