- فتوی نمبر: 5-26
- تاریخ: 18 مئی 2024
استفتاء
جناب مفتی صاحب مجھے ایک مسئلہ عرض کرنا ہے۔ مجھ میں الحمد للہ اتنی مالی و جسمانی استطاعت ہے کہ حج کا فريضہ بجالا سکوں، لیکن میرے شہر طویل المدت سے سخت بیمار ہیں، دمہ، شوگر، بلڈ پریشر اور موٹاپے کا شکار ہیں اور چلنے پھرنے سے عاجز ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کی ایسی صحت یابی کا بظاہر کوئی امکان بھی نہیں کہ میں ان کے ساتھ سفر حج پر جاسکوں۔ میری مدت دراز سے یہ شدید خواہش ہے کہ میں زیارت حرمین شریفین اور فريضہ حج کی ادائیگی سے سبکدوش ہوجاؤں۔ اب سچ بات یہ ہے کہ اس مہنگائی و گرانی کے دور میں صرف اپنے مصارف حج بمشکل برداشت سکتی ہوں۔ میں خود بے اولاد ہوں، جبکہ میرا بھانجا کہتا ہے کہ ” حضرت**** کے نزدیک آج کل کے حالات کے پیش نظر اگر کوئی مناسب انتظام ہوجائے تو جس عورت کو محرم میسر نہ ہو اور وہ کسی دوسرے محرم کا خرچ بھی نہ اٹھا سکتی ہو تو وہ کسی قابل اعتماد نا محرم کے ساتھ بھی سفر حج اختیار کر سکتی ہے ( مفہوم ) "۔
امسال میرا تایا زاد بھائی اور میری خالہ زاد بہن کا بیٹا اپنی بیوی اور بچی کے ہمراہ عازم حج ہے، ( یہ مجھ سے تقریباً دس سال چھوٹا ہے، اور میری عمر 45 برس سے اوپر ہے، ہم دونوں خاندان سالہا سال اکٹھے بھی رہے ہیں، یہ مجھے پھوپھو جی کہہ کے مخاطب کرتا ہے، کہنے کو میری بیٹے جیسا اور قابل اعتماد ہے، گو نامحرم ہے اگر مجھے بھی اس خاندان کے ساتھ سفر حج کی اجازت مرحمت ہو جائے تو میں بھی زیارات حرمین شریفین اور فريضہ حج کی ادائیگی سے بہرہ مند ہو سکوں گی اور اس حصول سعادت و برکت پر شاید رضائے الہٰی کی مستحق بن پاؤں۔ براہ کرام اس مسئلہ میں راہنمائی فرمائیے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جیسے حج و عمر اللہ کا حکم ہے ایسے ہی بغیر محرم سفر نہ کرنا یہ بھی شریعت کا حکم ہے ۔ کسی ایک کے شوق میں دوسرے کو قربان کرنا درست نہیں۔ اگر محرم میسر نہیں اور آپ کی نیت اور عزم ہے تو اللہ آپ کو اجر دیں گے۔ بہر حال بغیر محرم کے حج و عمرہ کے سفر پر جانے کی گنجائش نہیں۔ کبھی آپ کا کوئی بھتیجا یا بھانجا جائے تو اس کے ساتھ چلی جائیں۔ ایسا کوئی جاسکتا ہو تو اس کو ترغیب دیں۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی یہ انفرادی رائے ہے جس کو دیگر ( حنفی ) علماء نے اختیار نہیں کیا۔ خود علامہ کشمیری نے فیض الباری میں اس کو اپنی انفرادی رائے قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
و الأحاديث في هذا الباب صدرت عن حضرة الرسالة تارة كذا ( أي بيوم و ليلة ) و تارة كذا (أي بثلاثة أيام ) و ليت محمولة على اختلاف الرواة و في الفقه فهو من مسائل الفتن. ( فيض الباري: 3/ 231 )
© Copyright 2024, All Rights Reserved