استفتاء
1۔محرم میں کالے کپڑے پہننا کیسا ہے؟
2۔محرم میں کالی پگڑی پہننا کیسا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔کالے کپڑوں میں بذات خود کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ اہل تشیع کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے ممانعت ہے اور مشابہت بھی اس وقت منع ہوتی ہے جب مکمل مشابہت ہو، جزوی مشابہت منع نہیں ہے۔ ہمارے علاقے میں خاص کرمحرم میں اہل تشیع کالے کپڑے پہنتے ہیں اس لئے ان سے مشابہت کی وجہ سے کالے کپڑوں سے اجتناب ضروری ہے
2۔ اہل تشیع کے ذاکرین اگرچہ کالی پگڑی باندھتے ہیں تاہم وہ اسے بغیر شملہ کے ایک مخصوص انداز سے باندھتے ہیں ۔ لہذا اگر کوئی شخص اہل تشیع کے مخصوص انداز سے ہٹ کر کالی پگڑی باندھے تو ان سے مشابہت نہ ہونے کی وجہ سے جائز ہے اور اگر انہی کے انداز میں باندھے تو مشابہت کی وجہ سے ناجائز ہے۔
مرقاۃ المفاتیح(8/146) میں ہے
وقد ثبت في السير بروايات صحيحة: «أن النبي – صلى الله عليه وسلم – كان يرخي علامته أحيانا بين كتفيه، وأحيانا يلبس العمامة من غير علامة» ، فعلم أن الإتيان بكل واحد من تلك الأمور سنة.
در مختار( 2/464 )میں ہے:
فإن التشبه بهم لا يكره في كل شئ، بل في المذموم وفيما يقصد به التشبه، كما في البحر.
در مختار( 10/521 )میں ہے:
وندب لبس السواد وإرسال ذنب العمامة بين كتفيه إلى وسط الظهر.
امداد الاحکام (1/287) میں ہے :
سوال: من تشبہ بقوم فہو منہم، کا خلاصہ بیان فرمائیے، کہ مشابہت کسے کہتے ہیں اور کسی عارض کی وجہ سے کبھی مرتفع بھی ہوسکتی ہے یا نہیں ؟
جواب:تشبہ بالکفار کی چند صورتیں ہیں:
1۔ فطری امور میں مشابہت ، مثلا کھانا پینا، چلنا پھرنا، سونا لیٹنا،صفائی وغیرہ، یہ مشابہت حرام نہیں “قال فی الدر فان التشبه بهم لا یکره فی کل شئ بل فی المذموم و فیما یقصد به التشبه کما فی البحر اھ قال الشامی تحت قوله لا یکره فی کل شئ فانا ناکل ونشرب کما یفعلون (ص652 ج1)
2۔ عادات میں مشابہت مثلا جس ہئیت سے وہ کھانا کھاتے ہیں اسی ہئیت سے کھانا یا لباس ان کی وضع پر پہننا ، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ہماری کوئی خاص وضع پہلے سے ہو اور کفار نے بھی اس کو اختیار کر لیا ہو ، خواہ ہمارا اتباع کرکے یا ویسے ہی، اس صورت میں یہ مشابہت اتفاقیہ ہے، اور اگر ہماری وضع پہلے سے جدا ہو اور اس کو چھوڑ کر ہم کفار کی وضع اختیار کریں یہ ناجائز ہے، اگر ان کی مشابہت کا قصد بھی ہے تب تو کراہت تحریمی ہے، اور اگر مشابہت کا قصد نہیں ہے بلکہ اس لباس و وضع کو کسی اور مصلحت سے اختیار کیا گیا ہے تو اس صورت میں تشبہ کا گناہ نہ ہوگا، مگر چونکہ تشبہ کی صورت ہے اس لیے کراہت تنزیہی سے خالی نہیں “قال هشام: رأيت أبا يوسف لابسا نعلين مخصوفين بمسامير فقلت أترى بهذا الحديد بأسا؟ قال: لا، قلت: سفيان وثور بن يزيد كرها ذلك لأن فيه تشبها بالرهبان، فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التي لها شعر وإنها من لباس الرهبان. فقد أشار إلى أن صورة المشابهة فيما تعلق به صلاح العباد لا يضر، فإن الأرض مما لا يمكن قطع المسافة البعيدة فيها إلا بهذا النوع قلت وفعله عليه السلام محمول علي بيان الجواز اذا كان بدان القصد
مگرچونکہ آجکل عوام جواز کے لیے بہانے ڈھونڈھتے ہیں، ان کا قصد تشبہ ہی کا ہوتا ہے اس لیے اکثر احتیاط کے لیے عادات میں بھی تشبہ سے منع کیا جاتا ہے، خواہ تشبہ کا قصد ہو یا نہ ہو،
3۔ان امور میں تشبہ جو کفار کا مذہبی شعاریا دینی رسم اور قومی رواج ہے، جیسے زنار وغیرہ پہننا، یا مجوس کی خاص ٹوپی جو ان کے مذہب کا شعار ہے اس میں تشبہ حرام بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے، عالمگیریہ وغیرہ میں اس کی تصریح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved