- فتوی نمبر: 33-268
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تین طلاقوں کا حکم
استفتاء
بخدمت مفتیان کرام دارالافتاء و التحقیق جامعہ دارالتقوی لاہور
جناب عالی !ہم (میرے والد *** اور میرے حقیقی تایا ****[جو کہ میرے خالو بھی ہیں]) (رابطہ نمبر *******۔*****) عرصہ 20 سال سے اکٹھے رہائش پذیر ہیں اور یہ مکان میرے والد **** کی ملکیت ہے کیونکہ میرے تایا ابو جو کہ عرصہ 30 سال پہلے ایک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں معذور ہو گئے تھے جس کی وجہ کمر کی ہڈی اور پاؤں کی ہڈی میں فریکچر تھا ۔ اس ایکسیڈنٹ کے بعد میرے تایا ابو کی کام کرنے کی صلاحیت 100 فیصد متاثر ہو گئی ۔اس لیے میرے والد نے اپنے بڑے بھائی اور ان کی فیملی کو اپنے ہی گھر میں ایک پورشن بنا کر دیا جس میں وہ ہمارے ساتھ رہائش پذیر ہیں ۔ میرے تایا ابو کی عمر تقریباً 70 سال ہے اُن کی بینائی 98 فیصد خراب ہے اور چلنے پھرنے سے قاصر ہیں حتی کہ وہ واش روم بھی خود نہیں جا سکتے۔ میرے تایا ابو کی دو بیٹیاں ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں۔ مورخہ 10 جون 2025 عيد الاضحی ٰ کے چوتھے روز کچھ گھریلو ناچاقی ہوئی جس کی وجہ یہ تھی کہ میری تائی امی(جو کہ میری خالہ بھی ہیں جن کی عمر 68 سال ہے ) نے میرے تایا ابو سے علیحدہ گھر بنانے کی خواہش کی جس کا میرے تایا ابو نے اپنی بیماری ، لاچاری اور عدم وسائل کی وجہ سے انکار کر دیا لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی اور وقفہ وقفہ سے بات شدت اختیار کرتی گئی یہاں تک کہ میرے تایا ابو نے غصہ میں میری تائی امی کو کہا کہ “میں تمہیں آزاد کر دوں گا “جس پر تائی امی نے بھی غصے میں کہا کہ کر دو ! اس کے بعد بات مزید شدت اختیار کر گئی اور ایک موقع پر میرے تایا ابو نے مسلسل 3 سے 4 مرتبہ طلاق طلاق طلاق کا لفظ استعمال کیا جس پر موقع پر موجود بیٹھی میری تائی زاد بہن نے فوراً اپنے والد کے منہ پر ہاتھ رکھا اور انہیں خاموش کرا دیا اور ان کی منت سماجت کی کہ ایسے الفاظ استعمال نہ کریں۔لیکن اپنی بیماری اور غصے پر قابو نہ رکھتے ہوئے میرے تایا ابو نے ایک بار پھر تین مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کیا اور اس کے بعد میرے تایا ابو نے میرے مامو ں کو جو کہ ہمارے گھر سے 20 کلومیٹر دور ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں رہائش پذیر تھے ان کو بلایا اور کہا کہ اپنی بہن کو لے جاؤجس پر میرے ماموں آئے اور وہ اپنی بہن کو ساتھ لے گئے۔ اس سارے واقعے کے بعد میرے تایا ابو کو اپنی اس غلطی کا شدت سے احساس ہوا لیکن چونکہ معاملہ شرعی ہے اس لیے آپ سے اس کے متعلق فتوی مطلوب ہے کیونکہ میرے تایا ابو ،میری تائی امی ، ان کی بیٹیاں اور ہم سب کوئی شرعی راستہ تلاش کر رہے ہیں جس سے دوبارہ رجوع ممکن ہو اس بارے میں ہماری راہنمائی کی جائے ۔عین نوازش ہوگی۔
شوہر نے بذریعہ فون یہ بیان دیا :
کوئی خاص لڑائی نہیں تھی ۔ بس ضد بازی تھی کچھ زیور کے بارے میں ،تو میں نے اس دوران اس کا نام لے کر اسے تین دفعہ کہا کہ ” میں نے تمہیں طلاق دی “وہاں میرا بیٹا ، بیٹی ، جوائی ( داماد )اور بھی کئی رشتہ دار موجود تھے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں شوہر کے ” میں نے تمہیں طلاق دی ” تین مرتبہ کہنےسے تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں ۔ لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے ۔
فتاوی شامی (3/ 293) میں ہے :
كرر لفظ الطلاق وقع الكل،«قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق،»
بدائع الصنائع (3/ 187) میں ہے :
«وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة؛»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved