• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"میں نے تمہیں طلاق دی تم میری طرف سے فارغ ہو ” اوربلا تجدید نکاح اکٹھے رہنا

استفتاء

آج سے تقریباً آٹھ سال پہلے میرا شوہر کا زیادہ مجھے سے جھگڑا ہوا تھا۔ جس میں انہوں نے کہا” میں نے تمہیں طلاق دی تم میری طرف سے فارغ ہو " اس کے کچھ دیر بعد ہماری  صلح ہوگئی اور ہم نے رجوع کرلیا۔ اس کے تین چار سال بعد تقریباً پھر اسی طرح

جھگڑاہوا ، لیکن اس وقت میرے شوہر دوسری شادی کر چکے تھے انہوں نے پھر کہا ” میں نے تمہیں طلاق دی "یہ الفاظ دو بار استعمال کیا، جب ہماری صلح ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ نے پہلے بھی یہی الفاظ استعمال کیے تھے۔ میں نے نہیں کہے میں تو تمہیں ڈراتا ہوں، سچے دل سے تھوڑا کہتا ہوں تم اتنی زبان درازی مت کیا کرو جو مجھے غصہ آجائے۔ پھر بات آئی گئی ہوگئی۔ ہم ایک ساتھ رہنے لگے۔ اب 6 اپریل 2011ء کو پھر جھگڑا ہوا انہوں نے یہ الفاظ میں نے ” تمہیں طلاق دی "تین بار کہے اور پھر دو بار تین بار یہی الفاظ کہے اس پر میں نے اپنی بہن کو فون کیا بھانجے سے بات ہوئی اس نے پوچھا کیا ہوا تو میں نے بتایا انہوں نے مجھے طلاق دی ہے، پھر انکل آنٹی صلح کے لیے آئے تو میں نے ان کو بھی پوری تفصیل بتائی، جس پر انکل نے کہا کہ عمران صاحب یہ بات غلط ہے آپ کو ان لفظوں کی اہمیت کا اندازہ ہے ہم اتنے پکے مسلمان نہیں آپ کسی مولوی سے اس کا کفارہ پوچھ کر ادا کریں۔ جب شام کو گھرآئے تو میں پوچھا کہ  آپ نے کسی مولوی سے پوچھا ہے تو بولے ہاں میں نے پوچھا ہے اس نے کہا کہ 60 لوگوں کو کھانا کھلادو۔ میں اس کا بندوبست  کر رہا ہوں۔ اس پر میں نے کہا کہ مجھے بھی اس مولوی کے پاس لے کر جائیں میں بھی اپنے کانوں سے سننا چاہتی ہوں، اس پر کہنے لگے میں تمہیں مولوی کے سامنے نہیں لے کر جاؤں گا۔ میں مطمئن ہوں بس بیوی ہو تو بیوی بن کر  رہو، مولوی کے سامنے تم نہیں جاؤ گی اس پر میں نے سورة البقرہ آیت نمبر 284 کا حوالہ دیا تو بولے میں کسی کو نہیں مانتا، نہ کسی کی بات مانی ہے نہ مانوں گا جو مرضی کرلو تم اپنا غصہ ٹھنڈا کرو اور ناراضگی تو ختم کرو میں تم سے سوری کرتا ہوں میں نے تمہارے نام لیکر نہیں کہا تھا میں تو  تمہیں ڈراتا ہوں دل  سے تھوڑا کہتا ہوں چلو اب مان جاؤ ۔میں  پھر بھی نہ مانی تو بولے جاؤ جس سے بھی فتویٰ لینا ہے لے لو جو تمہارا دل کرتا ہے جاؤ کرو میں مانتا ہی نہیں ہوں کہ میں نے طلاق دی ہے بات ختم ۔پھر بھی نہیں مانی۔ تو بولے جا پھر آج سے تو مجھ پر حرام ہے تجھے عزت راس نہیں میں نے تجھے تیری اوقات میں رکھنا  ہے۔ جا اب عدالت میں دھکے کھا تو اب ایسے ہی لٹکے گی اگر سالوں میں فرق آجائے تو بھول کی معافی پھر یہ  کہتے ہیں” میں نے تمہیں طلاق دی ہی نہیں” ہر بار کہنے کے بعد کہ یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ میں نے نہیں کہا۔

وضاحت: پہلی مرتبہ کے جھگڑے کے بعد رجوع ہوا تھا، اس میں نکاح نہیں ہوا۔ محض صلح کے بعد اکٹھے رہنے لگے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پہلی مرتبہ کے جھگڑے میں خاوند کے ان الفاظ سے ” میں نے تمہیں طلاق دی تم میری طرف سے فارغ ہو” ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ اور اگر ” تم فارغ ہو” سے ایک اور طلاق دینے کی نیت کی تھی تو دو طلاقیں ہوئیں۔ اور کوئی بھی صورت ہو بہر حال میاں بیوی کا نکاح فی الفور ختم ہوگیا۔

لما في الدر المختار: و يقع بقوله أنت طالق بائن أو البتة … واحدة بائنة في الكل لأنه وصف الطلاق بما يحتمله. (4/ 485 )

و فيه: هو شرعاً رفع قيد النكاح في الحال بالبائن. (4/ 413)

اس طلاق کے بعد بغیر نکاح کے اکٹھا رہنا میاں بیوی کے لیے جائز نہیں رہا۔ اور چونکہ اس وقت طلاق بائن واقع ہوگئی تھی اس لیے بعد میں دی جانے والی  کوئی طلاق واقع تو نہیں ہوئی لیکن آٹھ سال سے دونوں بغیر نکاح کے رہے ہیں جس پر صدق دل سے دونوں کو توبہ کرنا چاہیے۔ اب اگر میاں اکٹھے ہونا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا ضروری ہے۔ اور یہ طلاق حساب میں باقی رہے گی۔ اور اگر خاتون کسی اور جگہ نکاح کرنا چاہے تو عدت گذارنے کےبعد کر سکتی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved