• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’میں طلاق ای دینی اے ‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا میاں بیوی کا جھگڑا ہو رہا تھا، میں نے اپنی بیوی کو مارا پیٹا اور نیچے چلا گیا، نیچے میری خالہ (ساس) سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کو یہ کہہ دیا کہ ’’میں طلاق ای دینی اے، میں طلاق ای دینی اے‘‘ (میں نے طلاق ہی دینی ہے، میں نے طلاق ہی دینی ہے) اس وقت وہاں صرف خالہ (ساس) موجود تھی اور کوئی نہیں تھا، میں یہ کہہ کر باہر نکل گیا، بعد میں جب گھر آیا تو محلے والے کہنے لگے کہ طلاق ہو چکی ہے، اس بارے میں راہنمائی فرمائیں کہ طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں؟

نوٹ: لڑکی کی والدہ سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ میرے داماد نے یہ الفاظ کہے تھے ’’میں طلاق دے دیاں گا، میں طلاق دے دیاں گا‘‘ (میں طلاق دے دوں گا، میں طلاق دے دوں گا) نیز شوہر کا کہنا ہے ’’طلاق ای دینی اے‘‘ یا ’’طلاق دے دیاں گا‘‘ ان دونوں میں سے ہی کوئی جملہ استعمال کیا تھا، لیکن اب اچھی طرح یاد نہیں ہے ان میں سے کون سا جملہ کہا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے لڑائی کے دوران جو جملہ استعمال کیا کہ ’’میں طلاق ای دینی اے، میں طلاق ای دینی اے‘‘ (میں نے طلاق ہی دینی ہے، میں نے طلاق ہی دینی ہے) یا ’’میں طلاق دے دیاں گا، میں طلاق دے دیاں گا‘‘ (میں طلاق دے دوں گا،میں طلاق دے دوں گا) وہ انشاء طلاق کا جملہ نہیں ہے، اس میں شوہر طلاق واقع نہیں کر رہا بلکہ مستقبل میں طلاق دینے کا وعدہ کر رہا ہے اور طلاق کا وعدہ کرنے سے طلاق نہیں ہوتی۔

عالمگیری (384/1) میں ہے:

فقال الزوج طلاق ميكنم طلاق ميكنم وكرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله كنم لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك.في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved