• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"میں تینوں ہنے ای طلاق دینداں واں” دو مرتبہ کہنا

استفتاء

کچھ دن پہلے میرے اور میرے شوہر کے درمیان گھریلو ناچاقی کی وجہ سے جھگڑا ہو گیا۔ میرے شوہر کہنے لگے کہ "میں کل کچہری جا کے تیرا فیصلہ کرتا ہوں”، میں نے کہا "کل کیوں ابھی کرو”۔ مجھے ان پر بہت یقین تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں، لیکن جب میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے ابھی طلاق دو، ابھی طلاق دو۔ انہوں نے میری باتوں سے تنگ آکر فوراً کہا "میں تینوں ہنے ای طلاق دینداواں، میں تینوں ہنے ای طلاق دینداواں” (میں تجھے ابھی طلاق دیتا ہوں، میں تجھے ابھی طلاق دیتا ہوں)۔ یہ سنتے ہی میرے تو حواس ہی کھو گئے، مجھے لگا میری تو دنیا ہی ختم ہو گئی۔ میں ان کے آگے رونے گڑ گڑانے لگی کہ "یہ آپ کا پیار ہے، جو سب کچھ ختم کر دیا؟” تو وہ مجھے مارنے لگے اور کہنے لگے  کہ "تو نے میری بیوی تو رہنا نہیں ، جی بھر کے مار تو لوں”۔ پھر میں اپنے بڑے کزن جو ان کے بڑے بھائی ہیں، ان کے گھر چلی گئی، رات وہاں رہی۔ صبح کہیں جانے لگی تو یہ مجھے کہنے لگے کہ "کہاں جا رہی ہو؟”، میں نے کہا "جب میں آپ کی بیوی نہیں رہی تو جہاں مرضی جاؤں”۔ تو یہ کہنے لگے "میں نے تمہیں دو طلاقیں دی ہیں، تم میری بیوی ہو”۔ میں نے کہا مجھے تو صحیح صحیح یاد نہیں۔ تو یہ کہنے لگے "مجھے یاد ہے”۔

اب آپ بتائیں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟ اور ہمارے لیے رجوع کی کوئی صورت ہے؟ ہم آگے کی زندگی کس طرح گذاریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر سائلہ کے شوہر نے فی الواقع یہی کلمات دو دفعہ ہی کہے ہیں کہ "میں تینوں ہنے ای طلاق دینداں واں، میں تینوں ہنے ای طلاق دینداں واں” تو دو طلاقیں رجعی واقع ہو گئی ہیں۔ جن کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران (یعنی طلاق کے بعد سے تین مرتبہ ایام ماہواری گذرنے سے پہلے پہلے) اگر شوہر رجوع کرنا چاہیے تو کرسکتا ہے۔ اور رجوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ گواہوں کے سامنے اپنی بیوی سے یہ کہہ دے کہ "میں نے تمہاری طلاق سے رجوع کر لیا”، اور عدت گذرنے کے بعد شوہر رجوع تو نہیں کر سکتا، البتہ باہمی رضا مندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ شوہر رجوع کرے یا نیا نکاح ہر صورت میں اب اسے صرف ایک طلاق کا اختیار رہ جائے گا، اور آئندہ ایک مرتبہ بھی طلاق دی تو بیوی بالکل حرام ہو جائے گی۔

(ماخوذ: فتاویٰ عثمانی: 2/ 340)

الهداية، كتاب الطلاق، باب الرجعة: 1/ 254، طبع شامله

و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض لقوله تعالی "فامسكوهن بمعروف”. (البقرة: 231) من غير فصل.

الشامية: 3/ 433،طبع شاملة

و المستحب أن يراجعها بالقول فافهم.

الهداية، كتاب الطلاق، باب الرجعة: 1/ 257، طبع شاملة

و إذا كان الطلاق بائناً دون الثلاث فله أن يتزوج في العدة و بعد انتقائها.

الدر المختار: 3 / 449، طبع شاملة

(و ينكح) مبانته بما دون الثلاث في العدة و بعدها بالإجماع.

الصحيح للبخاري: 3/ 198، طبع شاملة

عن عائشة رضي الله عنها جاءت امرأة رفاعة القرظي النبي صلی الله عليه و سلم فقالت كنت عند رفاعة فطلقني فأبت طلاقي فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير إنما معه مثل هدبة الثوب فقال أ تريدين أن ترجعي إلي رفاعة لا حتی تذوقي عسيلته و يذوق عسيلتك و أبو بكر جالس عنده و خالد بن سعيد بن العاص بالباب ينتظر أن يؤذن له فقال يا أبا بكر ألا تسمع إلی هذه ما تجهر به عند النبي صلی الله عليه و سلم.

و في الهداية: 1/ 257، طبع شاملة:

و إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوج في العدة و بعد انقضائها لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله و منع الغير في العدة لاشتباه النسب و لا اشتباه في إطلاقه و إن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتي تنكح زوجاً غيره نكاحاً صحيحاً و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها و الأصل فيه قوله تعالی: "فان طلقها فلا تحل له من بعد حتي تنكح زوجاً غيره”. البقرة: 230، فالمراد الطلقة الثالثة. فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved