• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میں تجھے بہن کہتا ہوں، تو مجھے بھائی کہو

استفتاء

شوہر کا حلفیہ بیان

***ولد*** مرحوم ۔۔۔ میں اپنے اللہ کو حاضر و ناظر رکھ کر بیان کرتا ہوں اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ پاک مجھے سزا دے۔

1۔ آج سے 3 سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے اپنے سسر صاحب مشتاق احمد کو یہ الفاظ کہے تھے کہ "اگر آپ میری بیوی کو نہیں بھیجتے ہو تو فارغ کروا لو”۔

2۔  2014ء میں میری اور میری بیوی کی لڑائی ہوئی تھی، تو میں نے اسے یہ کہا کہ "اگر آپ راضی نہیں ہو تو آپ اپنے ماں باپ کے ہاں رہو، اور میں اپنے گھر رہوں، آپ مجھ سے فارغ ہو اگر آپ کہیں تو”۔ تو میری بیوی نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔

3۔ مشتاق احمد میری والدہ صاحبہ کے پاس گیا تھا اور وہاں اس نے مجھے پوچھا کہ تیری والدہ کہتی ہے کہ ***نے طلاق دے دی ہے۔ مشتاق نے مجھے بار بار کہا کہ آپ نے طلاق دی ہے، تو میں نے جواب دیا کہ "اگر میری والدہ کے کہنے پر طلاق ہوتی ہے، پھر ٹھیک ہے”۔ اس کے علاوہ میں نے یہ نہیں کہا کہ "میں نے طلاق دی ہے۔”

وضاحت: "میں آپ سے بہن کہتا ہوں، آپ مجھ سے بھائی کہہ دیں”، سائل نے موبائل پر بیوی کو یہ الفاظ کہے تھے اور یہ الفاظ سائل کی منہ سے غصہ کی وجہ سے نکل گئے تھے، یہ الفاظ کہتے ہوئے سائل کی کوئی نیت نہیں تھی، سائل نے صرف یہی الفاظ کہے تھے، اس کے بعد فون کٹ گیا تھا۔

والدہ کا حلفیہ بیان

***ولد رمضان نے اپنی بیوی ***ولد ***سے کہا کہ "میں  تجھے بہن کہتا ہوں اور تو مجھے بھائی کہو”۔ یہ بات کئی بار ***نے کہی، اس بناء پر میں کہا کہ ***نے طلاق دی ہے۔ اس کے علاوہ ***نے کوئی اور بات طلاق کے بارے میں نہیں کی۔

شوہر کی بہن کا حلفیہ بیان

***ولد ***: *** ولد *** نے یہ کہا تھا کہ "میں نے اپنی بیوی کو بہن کہہ دیا ہے”، تو اس کی بہن ***نے

اپنی بھابی ***سے یہ کہا کہ آپ کو طلاق ہو چکی ہے، ***نے آپ کو بہن کہا ہے۔

بیوی کا حلفیہ بیان

میرا شوہر اکثر لڑ جھگڑ کر بھاگ جاتا تھا۔ اور اگر تم اپنی کو نہیں بھیجنا چاہتے تو مجھے سے طلاق لے لو۔ اور مجھ سے اکثر و بیشتر اس نے بہن بھی کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ "اگر تم میرے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی تو میں تمہیں فارغ کر دیتا ہوں، اور میں اپنے گھر چلا جاتا ہوں”۔ اور میرے شوہر کی والدہ اور بہن یہ کہتی ہیں کہ اس نے تجھے طلاق دیدی ہے۔ اور میرے شوہر کو گھر سے گئے ہوئے سات ماہ کا وقت گذر گیا ہے۔نوٹ: مذکورہ بالا بات ان الفاظ کی وجہ سے کہتی ہیں کہ میں تجھے بہن کہہ دیتا ہوں اور تو مجھے بھائی کہو۔

نیز بیوی کہتی ہے کہ شوہر نے مجھے فون پر یہ کہا تھا کہ "میں آپ سے بہن کہتا ہوں، آپ مجھ سے بھائی کہہ دیں، تاکہ معاملہ ختم ہو جائے”۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مختلف بیانوں میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی لفظ ایسا نہیں کہ جس سے طلاق ہو جائے۔ لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور رشتہء نکاح بدستور قائم ہے۔

شوہر کے اپنے بیان کے مطابق جو الفاظ کہے گئے ہیں وہ یہ ہیں:

1۔ لڑکے نے اپنے سسر سے کہا کہ "اگر آپ میری بیوی کو نہیں بھیجتے ہو تو فارغ کروا لو”، ان الفاظ سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ کیونکہ نہ تو سسر نے اپنی لڑکی کو فارغ کروایا، اور نہ لڑکے نے اسے فارغ کیا۔

2۔ 2014ء میں لڑکے نے اپنی بیوی سے ایک لڑائی کی وجہ سے یہ الفاظ کہے کہ "اگر آپ راضی نہیں ہو تو آپ اپنے ماں، باپ کے گھر رہو، اور میں اپنے گھر رہوں، آپ مجھ سے فارغ ہو اگر آپ کہیں تو”، ان الفاظ میں لڑکے نے یہ شرط لگائی ہے کہ "اگر آپ راضی نہیں ہو تو الخ” یا "آپ مجھ سے فارغ ہو اگر آپ کہیں تو”، اور لڑکی نے آگے سے کچھ جواب نہیں دیا، جس سے معلوم ہوا کہ لڑکے نے یہ الفاظ جس شرط کے ساتھ مشروط کر کے کہے تھے وہ شرط نہیں پائی گئی۔ لہذا ان الفاظ سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

3۔ لڑکے کے سسر یعنی مشتاق نے لڑکے سے کہا کہ "تیری والدہ کہتی ہے کہ ***نے طلاق دیدی ہے، مشتاق نے بار بار کہا کہ آپ نے طلاق دی ہے، تو میں نے جواب دیا کہ اگر میری والدہ کے کہنے پر طلاق ہوتی ہے تو پھر ٹھیک ہے”، لڑکے کے ان الفاظ سے بھی طلاق نہیں ہوئی۔ کیونکہ طلاق محض ماں کے کہنے سے نہیں ہوتی، بلکہ لڑکے کے دینے سے طلاق ہوتی ہے۔

4۔ لڑکے کی والدہ کے بیان میں یہ الفاظ ہیں کہ "***نے اپنی بیوی ***سے کہا کہ میں تجھے بہن کہتا ہوں اور تو مجھے بھائی کہو”، ان الفاظ سے بھی کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ کیونکہ اپنی بیوی کو حرفِ تشبیہ کے بغیر خالی بہن کہنا اگرچہ مکروہ اور گناہ کی بات ہے، لیکن خالی بہن کہنے سے طلاق نہیں ہوتی۔ البتہ اگر یوں کہتا کہ "تو میری بہن کی طرح، یا بہن جیسی ہے” تو پھر طلاق ہو سکتی تھی۔

(و إلا) ينو شيئاً أو حذف الكاف (لغا) و تعين الأدنی أي البر، يعني الكرامة. و يكره قوله أمي و يا ابنتي و يا أختي و نحوه. (الدر المختار: 5/ 132)

5۔ لڑکے کی بہن ریحانہ کے بیان میں بھی وہی بات ہے جو لڑکے کی والدہ کے بیان میں ہے۔

6۔ خود لڑکی کے بیان میں بھی، لڑکے اور اس کی والدہ اور بہن کے بیانوں سے جدا کوئی نئی بات نہیں کہ جس پر طلاق کا دار و مدار ہو سکتا ہو۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved