• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں سے طلاق کا حکم، مہر غیر معجل کی ادئیگی کا حکم

استفتاء

میری شادی کو تقریبا ساڑھے 12 سال ہو چکے ہیں اور ایک بیٹا ہے جس کی عمر اس وقت 10 سال ہے اور بوقت شادی حق مہر غیر معجل ایک لاکھ روپے مقرر ہوا تھا جبکہ معجل پانچ ہزار روپے تھا جو کہ ادا کر دیا گیا ۔مابین فریقین  نوک جھوک چلتی رہتی تھی۔ اتوار کے دن صبح کے وقت میرا اور میری بیوی کا جھگڑا شروع ہو گیا ۔جھگڑا بڑھتا گیا جھگڑے کے دوران اس نے مجھ سے کہا پھر مجھے فارغ کیوں نہیں کر دیتے  !میں نے کہا ٹھیک ہے ۔

****( بیوی کا نام) میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔طلاق دیتا ہوں۔ طلاق دیتا ہوں۔

بس یہی کہا تھا میں نے ۔پوچھنا یہ ہے(1)  کیا طلاق ہو گئی  ؟اور (2) حق مہر غیر معجل کی شرعا ًادائیگی کا کیا حکم ہے؟ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا الفاظ بولنے کے بعد ***** بیٹے کو لے کر میرے گھر سے چلی گئی۔

تنقیح  : (1)آج سے آٹھ سال پہلے بھی میں نے ان الفاظ سے بیوی کو ایک طلاق دی تھی   ” **** میں تمہیں طلاق دیتا ہوں  “۔ اس کے ایک ڈیڑھ ہفتے بعد ہماری صلح ہوگئی تھی ۔ (2)مہر  کی ادائیگی  کی  کوئی مدت طے نہیں ہوئی تھی  بس غیر معجل لکھا  گیا تھا ۔

دارالافتاء کے نمبر سے بیوی سے رابطہ کیا گیا ۔ اس نے دونوں واقعات کے متعلق شوہر کے  بیان کی تصدیق کی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ۔ لہٰذا اب نہ صلح ہوسکتی  ہے اور نہ رجوع  کی گنجائش ہے۔

توجیہ :  آٹھ سال پہلے کے واقعہ میں شوہر کے  مذکورہ الفاظ سے ایک طلاق واقع ہوگئی تھی ، جس کے بعد شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار رہ گیا تھا ۔  حالیہ واقعہ  میں  شوہر نے جو تین طلاقیں دی ہیں  ان میں سے دو تو واقع ہوگئیں اور تیسری طلاق محل باقی نہ رہنے کی وجہ سے  لغو ہوگئی ۔ لہٰذا ایک پہلی طلاق کو ملا کر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں ۔

(2) مذکورہ صورت میں چونکہ مہر  غیر معجل کی ادئیگی کے لیے کوئی مدت طے نہیں کی گئی تھی اس لیے طلاق دینے کے بعد شوہر پر اس کی ادائیگی لازم ہوگئی ۔

1۔فتاوی شامی  (3/ 293) میں ہے :

‌كرر ‌لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين .( قوله ‌كرر ‌لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق،(قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاء، وكذا إذا طلق بأن لم ينو استئنافا ولا تأكيدا لأن الأصل عدم التأكيد .

بدائع الصنائع  (3/ 187) میں ہے :

«وأما الطلقات الثلاث ‌فحكمها ‌الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة»

2۔فتاوی عالمگیری  (1/ 318) میں ہے :

«ولو قال ‌نصفه ‌معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم لا يجوز الأجل ويجب حالا وقال بعضهم يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق وروى عن أبي يوسف  رحمه الله تعالى  ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع

 لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه قال بعضهم يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط.»

فتاوی دار العلوم دیوبند ( 8/181) میں ہے:

مہر جس کی کوئی میعاد  بیان  نہیں کی گئی اس کا وقت وصول طلاق یا موت ہوتی ہے فی الحال اس مہرکا مطالبہ نہیں ہوسکتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved