- فتوی نمبر: 31-62
- تاریخ: 26 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > روزہ و رمضان > متفرقات عبادات
استفتاء
(1)ایک انسان تندرست ہے اور پھر اسکوپاگل پن کادورہ پڑناشروع ہوگیاجو پہلی مرتبہ 2ماہ رہااور پھرتین سال بعد جنون یعنی پاگل پن کادورہ لاحق ہواجو ایک ماہ رہاپھردوسال بعد 2ماہ رہا۔اس میں بالکل ہوش حواس نہیں رہتا،دن رات کاپتہ نہیں چلتا،نہ کسی کی پہچان ہوتی ہے تو(1) اب اس انسان پر نماز کاکیاحکم ہے کہ جنون کی حالت میں نمازیں فرض ہوں گی یانہیں؟ اور صحت یاب ہونے کے بعد انکی قضا ء ذمہ ہوگی یاپھر جنون کی حالت میں نماز فرض نہیں ہوتی؟ اور
( 2) ایسے شخص کے روزوں کاکیاحکم ہے کیا حالت جنون میں روزے بھی فرض ہونگے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)اگر چھ یا زائد نمازوں کے وقت میں جنون کی حالت رہے تو نماز فرض نہ ہوگی اور بعد میں ان کی قضا نہیں لیکن اگر پانچ نمازوں میں یا ان سے کم نمازوں میں جنون رہے تو ایسی صورت میں ان نمازوں کی قضا کرنی ہوگی۔
(2)اگر رمضان کے کسی بھی دن جنون کی حالت نہ رہے تو پورے مہینے کے روزے رکھنا ہوں گے لیکن اگر پورے مہینے ہی جنون رہے رمضان کے مہینے کے کسی دن بھی تندرستی نہ ہو تو ایسی صورت میں رمضان کے روزے فرض نہ ہوں گے اور ان کی قضا نہیں ہوگی۔
حاشیۃ الطحطاوی (ص:435) میں ہے:
“ومن جن” بعارض سماوي “أو أغمي عليه” ولو بفزع من سبع أو آدمي واستمر به “خمس صلوات قضى” تلك الصلوات “ولو” كانت “أكثر” بأن خرج وقت السادسة “لا” يقضي ما فاته
بدائع الصنائع(2/82) میں ہے:
وأما المجنون جنونا مستوعبا بأن جن قبل دخول شهر رمضان وأفاق بعد مضيه فلا قضاء عليه عند عامة العلماء، وعند مالك يقضي، وجه القياس أن القضاء هو تسليم مثل الواجب ولا وجوب على المجنون لأن الوجوب بالخطاب ولا خطاب عليه لانعدام القدرتين، ولهذا لم يجب القضاء في الجنون المستوعب شهرا، وجه قول أصحابنا.
أما من قال بالوجوب في حال الجنون يقول: فاته الواجب عن وقته وقدر على قضائه من غير حرج فيلزمه قضاؤه قياسا على النائم، والمغمى عليه ودليل الوجوب لهم وجود سبب الوجوب وهو الشهر إذ الصوم يضاف إليه مطلقا، يقال صوم الشهر، والإضافة دليل السببية، وهو قادر على القضاء من غير حرج.وفي إيجاب القضاء عند الاستيعاب حرج.وأما من أبى القول بالوجوب في حال الجنون يقول: هذا شخص فاته صوم شهر رمضان وقدر على قضائه من غير حرج فيلزمه قضاؤه قياسا على النائم، والمغمى عليه، ومعنى قولنا فاته صوم شهر رمضان أي: لم يصم شهر رمضان، وقولنا من غير حرج فلأنه لا حرج في قضاء نصف الشهر، وتأثيرها من وجهين أحدهما: أن الصوم عبادة، والأصل في العبادات وجوبها على الدوام بشرط الإمكان وانتفاء الحرج لما ذكرنا في الخلافيات إلا أن الشرع عين شهر رمضان من السنة في حق القادر على الصوم فبقي الوقت المطلق في حق العاجز عنه وقتا له، والثاني: أنه لما فاته صوم شهر رمضان فقد فاته الثواب المتعلق به فيحتاج إلى استدراكه بالصوم في عدة من أيام أخر ليقوم الصوم فيها مقام الفائت فينجبر الفوات بالقدر الممكن، فإذا قدر على قضائه من غير حرج أمكن القول بالوجوب عليه فيجب كما في المغمى عليه، والنائم بخلاف الجنون المستوعب فإن هناك في إيجاب القضاء حرجا لأن الجنون المستوعب قلما يزول بخلاف الإغماء، والنوم إذا استوعب لأن استيعابه نادر، والنادر ملحق بالعدم بخلاف الجنون فإن استيعابه ليس بنادر، ويستوي الجواب في وجوب قضاء ما مضى عند أصحابنا في الجنون العارض ما إذا أفاق في وسط الشهر، أو في أوله حتى لو جن قبل الشهر ثم أفاق في آخر يوم منه يلزمه قضاء جميع الشهر
احسن الفتاویٰ (4/51) میں ہے:
سوال : آپریشن کے لئے مریض کو بیہوش کیا جاتا ہے تو کیا بیہوشی کی حالت میں اس کی جو نمازیں قضا ہوں گی اُن کی قضا ضروری ہے ؟
جواب:اگر بیہوشی ایک دن رات یا اس سے کم رہی تو اس وقت کی نمازیں قضاء کی جائیں گی، اور اگر چھٹی نماز کا وقت بھی بیہوشی کی حالت میں گزر جائے تو اس صورت میں اختلاف ہے اس لئے قضا کر لینا بہتر ہے ، یہ حکم اپنے اختیار سے بیہوش کرنے کا ہے ، قدرتی بیہوشی میں اگر پانچ نمازوں سے زیادہ قضاء ہو گئیں تو بالاتفاق ان نمازوں کی قضاء معاف ہے، قال فى التنوير: ومن جن او اغمي عليه يوماً وليلة قضى الخمس وان زاد وقت صلوة لا ، زال عقله بينج او خمر لزمه القضاء وان طالت وفي الشرح لانه بصنع العباد كالنوم
فتاویٰ حقانیہ (4/148) میں ہے:
سوال : اگر مجنون روزہ کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تومجنون کے اولیاء فدیہ دے سکتے ہیں یانہیں؟
الجواب : احکام شرعیہ کا مکلف عاقل و بالغ انسان ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مجنون مکلف بالعبادات نہیں ہوتا، اس لیے اس کے مرنے کے بعد ور ثاء پر فدیہ دینا بھی لازم نہیں، بشر طیکہ یہ عارضہ ممتد ہو یعنی رمضان کا پورا مہینہ مجنون ہو) اور اگر عارضہ غیر ممتد ہو تو اس صورت میں مافات کی قضاء لازمی ہے، اور اگر قضاء سے قبل مرجائے تو بصورت وصیت فدیہ دینا لازمی ہے۔
مسائل بہشتی زیور(1/389) میں ہے:
اگر جنون ہوگیا اور پورے رمضان بھر دیوانہ رہا توا س رمضان کے کسی روزے کی قضا واجب نہیں اور اگر رمضان کے مہینے میں کسی دن جنون جاتا رہا اور عقل ٹھکانے آگئی تواب سے روزے رکھنا شروع کرےتو جتنے روز جنون میں گئے ان کی بھی قضا رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved