- فتوی نمبر: 6-293
- تاریخ: 08 مارچ 2014
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ایک شخص کی چار بیٹیاں ہیں وہ شخص اسلام آباد میں موجود اپنا ایک گھر رقبہ دو کنال اپنی چاروں بیٹیوں کو ہبہ کر دیتا ہے اور
C.D.A کے دفتر چاروں بیٹیوں کے ہمراہ جا کر وہ گھر ان چاروں کے نام کروا بھی دیتا ہے، اور جگہ دکھانے کے لیے چاروں بیٹیوں کو وہاں لے کر بھی گئے ہیں۔
نوٹ: اس ایریا میں حکومت کی طرف سے اس بات کی پابندی ہے کہ ایک کنال سے کم کی پلاٹنگ نہیں ہو سکتی۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا یہ ہبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟ اور وہ گھر ان کی ملکیت میں آیا یا نہیں؟ اور تقسیم کس طرح سے کریں، رقبہ کے لحاظ سے یا قیمت کے لحاظ یا قرعہ اندازی کے لحاظ سے؟ اور ہبہ درست نہیں تو کیا کریں؟
نیز وہ گھر بہت خستہ حالت میں ہے لہذا وہ اس گھر کو گرانا بھی چاہتیں ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ ہبہ کی مذکورہ صورت امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول کے مطابق درست ہے۔
لو وهب واحد داراً من اثنين لم يصح عند أبي حنيفة و قالا يصح. (رد المحتار: 12/ 559)
مدار الخلاف بينهم علی حرف و هو أن هبة الدار من رجلين تمليك كل الدار جملة أو تمليك من أحدهما و النصف من الآخر فعند أبي حنيفة رحمه الله تمليك النصف من أحدهما و النصف من الآخر فيكون هبة المشاع فيما ينقسم و عندهما هي تمليك الكل منهما فلا يكون تمليك الشائع. (بدائع الصنائع: 5/ 173)
فأبو حنيفة رحمه الله يعتبر الشيوع عند القبض و هما يعتبرانه عند العقد و القبض فلم يجوز أبو حنيفة رحمه الله هبة الواحد من اثنين لوجود الشياع وقت القبض و هما جوزاها لأنه لم يوجد الشياع في الحالين بل وجد أحدهما دون الآخر. (بدائع الصنائع: 5/ 173)
2۔ تقسیم قیمت کے اعتبار سے بھی کر سکتے ہیں، رقبہ کے لحاظ سے بھی کر سکتے ہیں اور قرعہ کے ذریعہ سے بھی کر سکتے ہیں۔
كما في فتاوی الهندية: إذا كان أرض و بنائ فعن أبي يوسف رحمه الله أنه يقسم كل ذلك باعتبار القيمة و عن أبي حنيفة رحمه الله أنه يقسم الأرض بالمساحة ثم يردمن وقع البناء في نصيبه او من كان نصيبه أجود دراهم علی الآخر حتی يساويه فتدخل الدراهم في القسمة ضرورة. (5/ 205)
و صحت أي القسمة برضاء الشركاء. (رد المحتار: 9/ 427) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved