• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مکانات کو کرایہ پر دینے کا جواز

استفتاء

1 میرا سوال یہ ہے کہ

1) حضور ﷺ کے دور میں یا خلفاء راشدین کے ادوار میں کسی مسلمان نے رہائشی گھر کرایہ کے لیے دیا تھا یا کسی مہاجر ،انصار یا فاتح نے رہائش اختیار کرنے کے لیے مکان کرایہ پر لیا یادیا تھا ؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو موجودہ دور میں نظام کرایہ داری کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

میرا خیال یہ ہے کہ مکان کی  کرایہ داری کی حیثیت سود سے زیادہ ہم آہنگ ہےکیونکہ:

2)رہائشی مکان کا کرایہ وصول کرنے میں مالک مکان کا کوئی نقصان نہیں ہوتا اس کو  ہمیشہ منافع ملتا ہے اور اس آمدنی کی یہ شکل اسے سود سے مشابہ کرتی ہے۔

3)سود مجبوری کی حالت میں دیا جاتا ہے اور رہائشی مکان کا کرایہ دار بھی مجبور اور بےبس ہوتا ہے کہ یا تو ہر سال وہ دس فیصد یا تین سال بعد تیس فیصد کرایہ میں اضافہ کرے اور اگر اضافی کرایہ ادا نہ کرے تو مالک مکان اسے رہائش سے بے دخل کردیتا ہے۔

4)نظام کرایہ داری کے تحت مالک مکان نے مکان کی سالانہ مرمت اور وائٹ واش کروانی ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں کوئی بھی مالک مکان ان چیزوں کا ذمہ نہیں لیتا ،ان کی غرض صرف منافع سے ہوتی ہے۔

5)رہائشی مکان کا تعلق اشیاء ضرورت سے ہے اشیاء سرمایہ سے نہیں ۔اسلام کی رو سے اشیاء ذخیرہ اندوزی حرام ہے ذخیرہ اندوزی صرف مخصوص حالت میں کی جاسکتی ہے کہ صارفین کو اس جنس کی تسہیل ہوتی رہے ،ذخیرہ  کرتے وقت یہ نظریہ نہ  ہو کہ مال کو مہنگا ہونے کے بعد بیچنا ہے۔

6)اگر مارکیٹ میں اسی جنس کی کمی پیدا ہو جائے تو فوراً ذخیرہ  شدہ مال کو مارکیٹ میں لایا جائے تاکہ عوام کو مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔لیکن اس معاشرے میں پلاٹوں کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے جس سے زمین عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو جاتی ہے ۔ لوگ دس دس ،بیس بیس پلاٹ خرید کر ان پر تعمیرات کرتے ہیں اور کرایہ کی منافع خوری سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔

7)ایسا طبقہ جن کے پاس اپنی رہائشی جائیداد نہیں ہوتی وہ کرایہ داری کی چکی میں پستا رہتا ہے  اور غربت کی لائن سے نیچے چلا جاتا ہے ،غریب آدمی جب مفلس ہوتا ہے تو وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ یا تو لوگوں سے سوال کرے اور یا ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کرے۔

جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو زمین میں فساد پیدا ہو جاتا ہے ناجائز منافع خوری اور رشوت ستانی کا بازار گرم ہوجاتا ہے جن لوگوں کے پاس وسائل نہ ہوں وہ چوری چکاری اور ڈاکہ زنی پر اترآتے ہیں ۔

آپ سے گذارش ہے کہ میرے بیان کردہ نکات پر موزوں فتوٰی صادر فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)حدیث کی رو سے رہائشی مکانات   اور زمین کو کرایہ پر دینا جائز ہے شروع سے یہ بات عمل میں چلی آرہی ہے اور اس  کے جواز پر اہل علم کا اجماع ہےامت کا اجماع قطعی دلیل ہے کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی‘‘۔

2) سود کی یہ تعریف کہ ’’جس چیز میں مالک کو ہمیشہ نفع ہی ملتا ہو اور نقصان نہ ہوتا ہو‘‘ کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے ۔

3) نیز یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ سود اور کرایہ مجبوری کی وجہ سے دیا جاتا ہےکیونکہ بڑے بڑے سرمایہ دار بینکوں سے سودی قرضے بھی لیتے ہیں اور کرایہ پر مکان دکان بھی لیتے ہیں ۔

4،5،6،7)  اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں  ماضی قریب میں پراپرٹی کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے جس کی ایک وجہ اس میں بھاری سرمایہ کاری ہے مگر اس کا یہ حل نہیں کہ افراد کو پراپرٹی کی خریداری  سے روک دیا جائے اور اسے ناجائز قرار دیا جائے ایسے مسائل کا حل حکومت کے پاس ہوتا ہے کہ وہ ایسی قانون سازی اور پالیسی وضع کرے جس سے مسئلہ حل ہو ۔حکومت مصلحت کے پیش نظر مباح کام پر بھی پابندی لگاسکتی ہے۔

موطأ مالك روايۃ محمد بن الحسن الشيبانی (ص202):

«أخبرنا مالك، أخبرنا يحيى بن سعيد، عن ابن المسيب، أنه سئل عن المرأة يطلقها زوجها وهي في ‌بيت ‌بكراء، على من الكراء؟ قال: على زوجها، قالوا: فإن لم يكن عند زوجها؟ قال: فعليها، قالوا: فإن لم يكن عندها؟ قال: فعلى الأمير»

ترجمہ: مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جو عورت کرائے کے گھر میں رہتی ہو اور اس کا شوہر اس کو طلاق دے تو اس گھر کا کرایہ کس کے ذمے میں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس عورت کے شوہر کے ذمے کرایہ ہے،لوگوں نے پوچھا کہ اگر شوہر کے پاس کرایہ کے پیسے نہ ہوں تو پھر کرایہ کس کے ذمے ہو گا ؟ انہوں نے فرمایا تو پھر اس عورت کے اپنے ذمے ہو گا ،لوگوں نے پھر پوچھا کہ اگر اس عورت کے پاس بھی کرایہ کے پیسے نہ ہوں تو کرایہ کون ادا کرے گا ؟ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ پھر حاکم وقت پر اس گھر کا کرایہ ہوگا۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ مکان کرایہ پر لینے کا تصور خیرالقرون میں تھا اگر مکان کرائے پر لینا جائز نہ ہوتا تو سعید بن مسیب کرایہ کے ذمہ دار کا تعین کرنے کی بجائے کرائے کے جواز پر سوال اٹھاتے۔

موطا امام مالک (ص 644،طبع:بشرٰی )میں ہے:

قال ابن شهاب فسالت سعيد بن المسيب عن استكراء الارض بالذهب والورق فقال لا باس به

ترجمہ:ابن شہاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے(حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے داماد اور مشہورتابعی)حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے زمین کو سونے ،چاندی(دینار اور درہم/کرنسی) کے عوض کرایہ پر لینے کے بارے میں پوچھا تو حضرت  سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔

صحیح مسلم(2/1050طبع:بشرٰی)میں ہے:

حنظلة بن قيس الانصاري قال : سالت رافع بن خديج عن كراء الارض بالذهب والورق ،فقال لا باس بذلك

ترجمہ: حنظلہ بن قیس انصاری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابی حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا زمین کو سونے اور چاندی (دینار اور درہم/کرنسی )کے عوض کرایہ پر دینا جائز ہے؟تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

الموسوعۃ الحدیدثیۃ لمرویات الامام ابی حنیفۃ(13/46)میں ہے:

8248: محمد قال اخبرنا ابوحنيفة عن ابي الحصين عثمان بن عاصم الثقفي عن ابن رافع عن ابيه عن النبي صلى الله عليه وسلم انه مر بحائط فاعجبه فقال لمن هذا ؟ فقال لي يارسول الله ! استاجرته قال لا تستاجره بشيئ منه

ترجمہ: حضرت رافع بن خدیج  رضی اللہ عنہ کے بیٹے اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ ایک باغ کے پاس سے گذرے جو کہ آپ ﷺ کو  بہت اچھا لگا،آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کس کا باغ ہے ؟حضرت رافع بن خدیج نے فرمایا کہ یارسول اللہ یہ میرا باغ ہے جوکہ میں نے کرایہ پر لیا ہے ،اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا  کہ  باغ کی پیداوار کو اجرت نہ بنانا،(درہم اور دینار/کرنسی کو اجرت بناسکتے ہو جیسا کہ ان ہی صحابیؓ کے حوالے سے پہلی روایت میں گزرا)

الاشراف علی مذاہب العلماء لابن المنذر (6/303)میں ہے:

”باب اجارة الدار والدابة: قال أبو بكر: م 3993 – أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم، على أن اجارة المنازل، والدواب جائز“

ترجمہ: تمام اہل علم کا  اس بات پر اجماع ہے کہ گھروں اور سواریوں کو کرائے پر دینا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved