- فتوی نمبر: 14-291
- تاریخ: 02 جولائی 2019
- عنوانات: حظر و اباحت > پردے کا بیان
استفتاء
محترم مفتی صاحب مندرجہ ذیل مسئلہ میں قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی رہنمائی کی درخواست ہے کہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ/ یونیورسٹی جہاں مخلوط تعلیمی نظام ہے لیکن وہاں کی انتظامیہ ماحول کو اسلامی بنانے میں پر عزم بھی ہے، اس سلسلے میں مخلوط کلاسز کی شرعی حیثیت ہوئی پہ بات ہوئی تو انتظامیہ کا موقف یہ ہےکہ ہم مخلوط تعلیمی نظام اور کلاسز کے باوجود اختلاط نہیں ہونے دیتے ،کیونکہ اس کے لئے ہم مندرجہ ذیل اقدامات اٹھاتے ہیں:
1۔ یونیفارم ایسا رکھا گیا ہے جو شرعی تقاضوں کو پورا کرتا ہے مثلا دو پٹہ وغیرہ (برقعہ اور نقاب ضروری نہیں لیکن اس کی ذہن سازی اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔)
2۔ کلاس رومز میں کرسیاں دو اطراف میں لگی ہوئی ہیں، درمیان میں چلنے کی جگہ ہے،لڑکے ایک طرف کی کرسیوں پر بیٹھتے ہیں، لڑکیاں دوسری طرف۔
3۔نصابی سرگرمیوں میں مثلا گروپ سرگرمیوں میں مخلوط نہیں بنائےجاتے بلکہ لڑکے اور لڑکیوں کے الگ الگ گروپس بنائے جاتے ہیں۔
4۔ کیفے ٹیریا الگ الگ ہیں۔
5۔ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے فارغ اوقات صرف کرنے کے لئے یعنی بیٹھنے یا کھیل کود کے لیے مقامات الگ الگ ہیں ۔(اگرچہ دیواریا قنات وغیرہ لگاکر مقامات کو باپردہ نہیں بنایا گیا۔
6۔ اور یہ اجازت بھی نہیں ہےکہ لڑکے ،لڑکیاں مختلف گروپس بنا کر کسی جگہ بیٹھیں ،گفتگو کریں یا اخلاقی حوالے سے کوئی قابل اعتراض منظر کا باعث بنے ۔
7۔ تفریح پے جانا ہوتو لڑکے ،لڑکیوں کی الگ الگ گروہ جاتے ہیں کبھی ایک جگہ یااکٹھے نہیں بھیجے جاتے۔
8 ۔پڑھانے والے اساتذہ اور استانیاں دونوں ہوتے ہیں۔
اہم نوٹ : ادارے کی انتظامیہ کی نیت اور ادارے کے اخلاص اور سنجیدگی میں کوئی شبہ نہیں ہے،لیکن مذکورہ اقدامات اور پالیسیوں کی موجودگی کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دو تین، تین کی ٹولیوں میں لڑکے،لڑکیاں برآمدے، پارکنگ ایریا اور خواتین کیفے ٹیریا کےاردگردمحوِ گفتگو ہوتے ہیں اوراس کو کنٹرول کرنے کا کوئی عملی نظام موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ماحول کو کنٹرول کرنا ادارے کی شرعی ذمہ داری ہے یا نہیں ؟اور کیا نظام کو غیر شرعی ہونے سے بچانے کے لیے مذکورہ بالا اقدامات کافی ہیں؟ برائے کرم قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مخلوط تعلیمی نظام جائز نہیں ،ادارے نے اختلاط سے بچنے کے لئے جو اقدامات کیے ہیں وہ ایک حد تک اچھے ہیں تاہم جو از کے لئے کافی نہیں، کیونکہ موجودہ اقدامات میں چہرے کے پردے کا کوئی عملی انتظام نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا انتظام ہے کہ لڑکے لڑکیاں آپس میں اختلاط نہ کر سکیں، اسی طرح استاد اور استانی کے پڑھانے میں اصل طریقہ تو یہ ہے کہ لڑکیوں کو استانی پڑھائیں ،لڑکوں کو استاد پڑھا ہیں اور اگر ایسا کرنا مشکل ہو تو کم ازکم پردے کا انتظام کر کے پڑھائیں۔
قال الله تعالی:یاایها النبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیهن من جلابیهن(الاحزاب:59)
قال ابو بکر الجصاص:فی هذه الایة دلالة علی ان المرأة الشابةمأمورۃبستر وجهها عن الأجنبین واظهار الستر والعفاف لئلا یطمع اهل الریب فیهن (احکام القرآن للجصاص،سورة الاحزاب:59)
قال الحافظ ابن کثیر :امر الله نساء المؤمنین اذا خرجن من بیوتهن فی حاجة ان یغطین وجوههن من فوق رؤسهن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة(تفسیر ابن کثیر ، سورة الاحزاب:59)
عن ابن مسعودرضی الله عنه ان رسول اللهﷺ قال ان المرأة عورة فاذا خرجت استشرفها الشیطان،رواه ترمذی (مشکوة المصابیح کتاب النکاح)
عن ام سلمة انها کانت عند رسول اللهﷺ ومیمونة اذا اقبل ابن ام مکتوم فدخل علیه فقال رسول الله ﷺ احتجبا منه فقلت یارسول اللهﷺ الیس هو اعمی لایبصرنا فقال رسول اللهﷺ افعمیاوان انتما الستما تبصرانه (مشکوة المصابیح،کتاب النکاح، باب النظر الی المخطوبة)
(فحل النظر)مقید بعدم الشهوة،والاحرام وهذا فی زمانهم وفی زماننا فمنع
من الشابة ،قهستانی وغیره،(الدر المختار،کتاب الحظر والاباحة،فصل فی النظروالمس)۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved