• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مخلوط تعلیم کا حکم

استفتاء

کیا مخلوط تعلیم حاصل کرنا جائز ہے؟لڑکوں اور لڑکیوں  کے لیے کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اسلام مردوں اور عورتوں کے اختلاط سے حددرجہ بچنے کی تاکید کرتا ہے اس لیے مخلوط تعلیمی نظام میں پڑھنا جائز نہیں۔ لیکن اگر ایسے تعلیمی ادارے میسر نہ ہو جہاں مردوں اور عورتوں کی تعلیم کا نظام الگ ہو تو ایسے علوم اور فنون جن کا حصول مسلم معاشرے کی اہم ضرورت ہے ان کو مرد مخلوط تعلیمی اداروں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں تاہم ایسی صورت میں غیرضروری اختلاط سے احتراز کریں اور اپنی نظروں کی حتی الامکان حفاظت کريں لیکن عورتوں کے لئے مخلوط تعلیم حاصل کرنے کی گنجائش نہیں کیونکہ اول تو عورتوں سے متعلق کوئی ایسے علوم اور فنون نہیں جن کی مسلم معاشرے کو اہم ضرورت ہو اور اگر کچھ ہیں بھی تو ان کے لیے کچھ نہ کچھ غیر مخلوط تعلیمی ادارے موجود ہیں جن سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔

فتاویٰ عثمانی 1/169میں ہے :

سوال:(۱)اس نظام تعلیم( یعنی مخلوط نظام تعلیم از ناقل) میں علم حاصل کرنا عورتوں کے لئے کیسا ہے؟

2-اس نظام تعلیم( یعنی مخلوط نظام تعلیم ۔از ناقل)میں علم حاصل کرنا مردوں کے لئے کیسا ہے؟

جواب:(1-2)شریعت کا اصل حکم تو یہ ہے کہ نامحرم مردوں اور عورتوں کے اختلاط سے پرہیز کیا جائے خاص طور پر ایسا مستقل مشغلہ اختیار کرنا جس میں نا محرم خواتین کے ساتھ مستقل میل جول ہو بغیر ضرورت کے جائز نہیں لہذا حکومت اور مسلم معاشرے کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ مخلوط تعلیم کے بجائے لڑکوں کے لئے الگ اور لڑکیوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے قائم کریں لیکن جب تک ایسا انتظام نہ ہو تو چونکہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا ایک ضرورت ہے اور اس میدان میں متدین افراد کی کمی ہے جسے دور کرنے کا یہی راستہ ہے کہ متدین افراد میڈیکل کی تعلیم حاصل کریں اس لئے اگر اس تعلیم کے حصول کا وہ راستہ نہ ہو جو اوپر بیان کیا گیا تو اس شرط کے ساتھ تعلیم کے حصول کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ حتی الامکان اپنے آپ کو بے پردہ نامحرم خواتین سے دور رکھیں اور جہاں کہیں ایسی خواتین کا سامنا ہو وہاں نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی نگاہ اور دل کی حفاظت کریں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved