• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مکرہ کا تحریرطلاق پر دستخط کرنا

استفتاء

میں نے 2010ء میں دوسری شادی کی، میرے گھر والوں نے مجھ پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا تھا کہ اس ( دوسری بیوی ) کو طلاق دو۔ والد صاحب نے ایک دفعہ مجھے مارا بھی اور وہ کوئی چیز مارنے کے لیے تلاش کر نے لگے اتنے میں میں گھر سے باہر نکل گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مجھے ساڑ دینے (جلا دینے ) کی بھی دھمکیاں دی تھیں۔ اور انہوں نے بالآخر مجھے کہا کہ اب تم  کو وکیل کے پاس جانا ہے اور وہاں تم نے کچھ بھی نہیں کہنا اور چپ چاپ سائن کر دینے ہیں۔ والد صاحب  اور دونوں چچا دونوں ساتھ تھے وہاں جا کر میں نے دستخط کر دیے۔

مفتی صاحب میں نے وہاں جانے سے پہلے اپنی بیوی کو بتا دیا تھا کہ میں تمہیں بالکل طلاق نہیں دینا چاہتا اور نہ میں زبان سے طلاق دے رہا ہوں اس وقت میرے پر گھر والے حاوی ہوئے پڑے ہیں اس لیے سائن کر رہا ہوں۔ وکیل کے پاس جا کر تحریر مجھے پڑھنے کے لیے دی گئی جہاں طلاق کا لفظ تھا وہاں میں  دل میں نہیں نہیں کہتا رہا۔

اب واقعے کو قریب ڈیڑھ سال گذر گیا ہے۔ اب گھر  والے نرم پڑ گئے ہیں اور مجھے اپنے سسرال یا بیوی کے پاس آنے جانے سے بھی  نہیں روکتے۔ لیکن مسئلہ شریعت کا ہے کہ کیا ہمارے لیے اب میاں بیوی کی طرح رہنا ممکن ہے یا نہیں؟

نوٹ: مذکورہ بالاساری باتیں میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر حلفاً بیان کر رہا ہوں جس تحریر پر دستخط کروائے گئے تھے وہ ساتھ منسلک ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر یہ سچ ہے کہ مذکورہ صورت میں شوہر  کو طلاق دینے پر مجبور کیا گیا اور نہ دینے کی صورت میں مارپیٹ کی گئی اور جلانے کی دھمکی بھی دی گئی جس کے دباؤ میں آکر شوہر نے طلاق کے الفاظ بولے بغیر صرف طلاق نامہ پر دستخط کی، لہذا اکراہ ثابت ہونے اور شوہر کےطلاق کا تلفظ کیے بغیر صرف طلاق نامہ  پر دستخط کرنے کی وجہ  سے طلاق واقع نہیں ہوگی اور نکاح اپنی جگہ برقرار رہے گا۔

و هو نوعان: تام و هو الملجيء بتلف نفس أو عضو أو  ضرب مبرح و إلا فناقص و هو  غير الملجيء. (شامي: 9/ 218)

و قيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا. ( البحر الرائق: 3/ 429 )

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved