- فتوی نمبر: 23-259
- تاریخ: 25 اپریل 2024
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > عشر و خراج کا بیان
استفتاء
کیا فرما تے ہیں مفتیا ن کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ زید نے عمر و سے زمین بطور ٹھیکہ لی ،زمین چاہی ہے بارانی نہیں ہے اور یہاں کا رواج ہے کہ بارانی زمین سالانہ ایک من گندم یا اس کی قیمت پرلی جا تی ہے ۔
زید نے عمرو سے زمین ٹھیکہ پر لینے کے بعد بکر کو ایک تہائی پیدوارپر دےدی ہے اس طرح کہ کھاد ، بیج،وغیر ہ زید کا ہے اور کام کرنا یا مزدور سے مزدوری پر کام کروانا بکر کے ذمہ ہے اسی طرح بکر کے ذمہ ہے کہ وہ فالتو گھا س جو فصل میں اگ آتی ہے اس کو وہ اپنے ہاتھ سے ختم کرے یا پھر گھاس ختم کرنے والی دوائی کا سپرے کرکے گھاس کو ختم کرے ۔
فصل جب تیار ہوجا تی ہے تو ایک تہائی کے لحاظ سے زید وبکر کے درمیان رقم تقسیم ہوجاتی ہے،دو تہائی زید کو اور ایک تہائی بکر کو مل جاتی ہے ۔
بکر غریب آدمی ہے اور مستحق زکوۃ ہے اور مقروض بھی ہے وہ کہتا ہے کہ جب کبھی حالات ٹھیک ہوتےہیں تو میں اپنے ایک تہائی حصہ کا عشر نکالتا ہوں اور جب حالات تنگ ہوتے ہیں تو نہیں نکالتا ۔تو تفصیل طلب بات یہ ہے کہ :
(1)مقروض ومستحق آدمی بھی اپنی فصل سے عشر نکالے گا یا اسے عشرمعاف ہے ؟
(2) مذکورہ معاملے میں بکر کے ذمہ عشر ہے یا سار اعشر زید کے ذمہ ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)مقروض اور مستحق آدمی پر بھی عشر واجب ہے ۔
(2) مذکورہ صورت میں زیداور بکر دونوں پر اپنے اپنے حصے کے بقدر عشر واجب ہے ۔
شامی(3/278) میں ہے:وفي المزارعة إن كان البذر من رب الأرض فعليه ، ولو من العامل فعليهما بالحصة.(ردالمحتار)ولو دفع الأرض العشرية مزارعة أن البذر من قبل العامل فعلى رب الأرض في قياس قوله لفسادها وقالا في الزرع لصحتها ، وقد اشتهر ان الفتوى على الصحة وان (البذر)من قبل رب الارض كان عليه اجماعا.والحاصل أن العشر عند الإمام على رب الأرض مطلقا وعندهما كذلك لو البذر منه ولو من العامل فعليهما وبه ظهر أن ما ذكره الشارح هو قولهما اقتصر عليه لما علمت من أن الفتوى على قولهما بصحة المزارعة فافهم. لكن ما ذكر من التفصيل يخالفه ما في البحر و المجتبى و المعراج و السراج و الحقائق و الظهيرية وغيرهما من أن العشر على رب الأرض عنده عليهما عندهما من غير ذكر هذا التفصيل وهو الظاهر لما في البدائع من أن المزارعة جائرة عندهما والعشر يجب في الخارج والخارج بينهما فيجب العشر عليهما وفي شرح درر البحار عشر جميع الخارج على رب الأرض عنده لأن المزارعة فاسدة عنده فالخارج له إما تحقيقا أو تقديرا لأن البذر إن كان من قبله فجميع الخارج له وللمزارع أجر مثل عمله وإن كان من قبل الزارع فالخارج له ولرب الأرض أجر مثل أرضه الذي هو بمنزلة الخارج إلا أن عشر حصته في عين الخارج وعشر حصة المزارع في ذمة رب الأرض.
شامی(9/410 ) می ہے:دفع الارض المستاجرة من الآجر مزارعة جاز،إن البذر من المستاجر.
مسائل بہشتی زیور(2/244)میں ہے:
ایک شخص نے زمین اجرت پر لی پھر زمین کے مالک کو وہی زمین مزارعت پر دیدی تو اگر بیج اس شخص کے ذمے ہوتو یہ صورت جائز ہے۔
مسائل بہشتی زیور (1/374) میں ہے:
مسئلہ: عشری زمین میں عشر یا نصف عشر کل پیداوار میں واجب ہوتا ہے خواہ پیداوار تھوڑی ہو یا زیادہ ہو اس میں کوئی نصاب شرط نہیں ہے۔ مالک پر قرض اس کی ادائیگی سے مانع نہیں ہے ۔
بہشتی زیور(194) میں ہے:
مسئلہ :یہ بات کہ یہ دسواں یا بیسواں حصہ کس کے ذمہ ہے یعنى زمین کے مالک پر ہے یا پیداوار کے مالک پر ہے۔اس میں بڑا عالموں کا اختلاف ہے مگر ہم آسانى کے واسطے یہى بتلایا کرتے ہیں کہ پیدوار والے کے ذمہ ہے۔سو اگر کھیت ٹھیکہ پر ہو خواہ نقد پر یا غلہ پر تو کسان کے ذمہ ہوگا اور اگر کھیت بٹائى پر ہو تو زمیندار اور کسان دونوں اپنے اپنے حصہ کا دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved