- فتوی نمبر: 9-375
- تاریخ: 24 اپریل 2017
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میری نانی کا انتقال ہو چکا ہے۔ میری نانی کی آٹھ اولادوں میں سے پانچ کا انتقال ہو چکا ہے۔ نانی جان کی عمر انتقال کے وقت تقریباً 90 سال تھی نانی کے نام نقد چار لاکھ، چھ لاکھ کا زیور، پچاس لاکھ کا فلیٹ، دو کروڑ کا مکان، پچاس لاکھ کی زرعی زمین موجود ہے۔ نانی کے تین بیٹے نانی سے پہلے انتقال کر چکے ہیں اور تین بیٹے زندہ ہیں دو بیٹیاں بھی نانی سے پہلے انتقال کر چکے ہیں۔ ایک بیٹے جو انتقال کر چکے ہیں ان کے بیٹے اسی گھر میں بیوی بچوں سمیت گھر میں ہی رہائش پذیر ہے۔ اب نانی کے تین بیٹے زندہ ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ شرعی طور پر تمام جائیداد کے ہم تین ہی حق دار ہیں۔ نانی کی جو پانچ اولادیں انتقال کر چکی ہیں ان کے چودہ اولادیں ہیں قانونِ پاکستان کے تحت کوئی بھی جائیداد فروخت کرنے کے لیے وراثتی سرٹیفیکیٹ درکار ہوتا ہے جو فیملی کورٹ سے بنوانا پڑتا ہے جس کے لیے تمام اولاد اور مرحوم اولاد کے بچوں کو عدالت میں پیش ہو کر سرٹیفیکیٹ بنوانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے تمام اولادوں اور مرحوم اولادوں کے death سرٹیفیکیٹ اور بچوں کے شناختی کارڈر کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب جو تین اولادیں زندہ ہیں وہ کہتی ہے کہ یہ سرٹیفیکیٹ ہم تین اولادوں کے لیے بنوایا جائے۔ نانی کی جو اولادیں انتقال کر چکی ہے ان میں کوئی صاحب حیثیت بھی نہیں ۔ اب آپ بتائیں کہ شرعی لحاظ سے اس جائیداد کی تقسیم کس طرح کی جائے گی۔
وضاحت: قانون اعتبار سے نانی کی تمام حقیقی اولاد جو زندہ ہو وہ خود عدالت آئے گی اور جو حقیقی اولاد وفات پاچکی ہے آگے اس کی ساری اولاد عدالت آئے گی۔ نادرا کی تصدیق کے بعد عدالت تمام افراد کو پاکستان کے قانون کے مطابق وارث قرار دیتی ہے۔ لہذا نانی کا ورثہ آگے اسی وقت فروخت ہو سکتا ہے جب تمام اولادیں دستخط کریں۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے تین ماموں جو زندہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ شرعی اعتبار سے صرف ہم وارث ہیں۔ لہذا باقی تمام لوگ عدالت آکر وراثت کا سرٹیفیکیٹ بنوا لیں اور پھر فروخت کے وقت کاغذات پر دستخط کریں اور ہمیں سب کچھ دے دیں۔ کیونکہ ہمارے علاوہ باقی تمام لوگ شرعاً وارث نہیں ہیں۔ جبکہ ہم لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں تو آپ قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ نانی کے ترکہ کا شرعی طور پر وارث کون ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں نواسے نواسیاں شرعی اصول کے اعتبار سے ماموؤں کے ہوتے ہوئے نانی کی میراث میں حصے دار نہیں ہیں۔ البتہ ماموؤں کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرتے ہوئے انہیں کچھ نہ کچھ دیدیں۔ اور نواسوں نواسیوں کو بھی چاہیے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کا حق نہیں رکھا وہاں زبردستی نہ لیں۔
فتاویٰ شامی (۔۔۔/529) میں ہے:
ويحجبون حجب الحرمان بحال أخرى … وهو مبني على أصلين أحدهما: أنه يحجب الأقرب ممن سواهم الأبعد ……. والثاني أن من أدلى بشخص لا يرث معه كابن الابن لا يرث مع الابن.
© Copyright 2024, All Rights Reserved