• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

’’من قرأ القرآن فاستظهره‘‘حدیث کی تشریح

استفتاء

من ‌قرأ ‌القرآن فاستظهره، فأحل حلاله، وحرم حرامه أدخله الله به الجنة وشفعه في عشرة من أهل بيته كلهم قد وجبت له النار

مجھے اس حدیث  مبارکہ کے ترجمے یا فہم میں تھوڑا اشکال ہے رہنمائی فرمائیں۔میری سمجھ میں واستظھرہ سے مراد صرف حفظ نہیں بلکہ خوب سمجھ کر اس کے احکام پر دسترس حاصل کرنا یا دوسرے لفظوں میں صرف حافظ کی بجائے باعمل عالم ہونا ہے۔ اسی طرح’’ فاحل حلاله وحرم حرامه‘‘ کا مطلب حلال جانا یا اسی طرح صرف حرام جانا نہیں بلکہ اس کے حلال کو حلال کیا اور حرام کو حرام کیا  یعنی اس کے حلال وحرام پر ایمان لاتے ہوئے اس پر عمل پیرا رہا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مستفتی:03363175197

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے سوال کا حاصل بظاہر یہ ہے کہ مذکورہ فضیلت کے لیے حفظ ضروری نہیں، بلکہ عالم ہونا بھی کافی ہے  لہٰذا جو عالم حافظ نہیں اسے بھی مذکورہ فضیلت حاصل ہونی چاہیے یا  مذکورہ فضیلت کے لیے حافظ ہونا کافی نہیں بلکہ عالم ہونا بھی ضروری ہے لہٰذا  جو حافظ عالم نہیں اسے مذکورہ فضیلت حاصل نہیں ہونی چاہیے؟ الغرض آپ کو خالی حافظ کے لیے مذکورہ فضیلت ہونے میں اشکال ہے  اور دوسری بات یہ ہے کہ ’’احل حلاله وحرم حرامه‘‘ سے مراد صرف اعتقاداً حلال وحرام جاننا مراد نہیں بلکہ عمل بھی ضروری ہے۔ لہٰذاجو حافظ یا عالم اعتقاداً حلال وحرام جانتا  ہو  مگر وہ اس حلال وحرام پر عمل پیرا نہ ہو  اسے بھی مذکورہ فضیلت حاصل نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آپ کے سوال کا حاصل  یہی ہے  جو ہم نے ذکر کیا تو  ہمیں آپ کی دوسری بات سے تو اتفاق ہے یعنی مذکورہ فضیلت کے لیے عمل بھی ضروری ہے باقی پہلی بات سے اتفاق نہیں یعنی  ہماری تحقیق  میں مذکورہ فضیلت صرف حافظ کے لیے ہے خواہ وہ عالم ہو یا نہ ہو،لہٰذا جو  عالم حافظ نہ ہو  اس کے لیے مذکورہ فضیلت نہ ہوگی کیونکہ ایک تو شارحینِ حدیث نے ’’استظهره‘‘ کا ترجمہ  حفظ قرآن سے کیا ہے اور دوسرے ابن ماجہ کی روایت میں’’استظهره‘‘ کے بعد ’’وحفظه‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں جو بظاہر  عطف تفسیر کی حیثیت سے ذکر ہوئے ہیں  اور تیسرے اگر مذکورہ فضیلت کے لیے  حفظ ضروری نہ ہوتا بلکہ صرف عالم ہونا کافی ہوتا تو ’’ ‌من ‌قرأ ‌القرآن‘‘ کے بعد ’’ استظهره وحفظه‘‘ کے الفاظ ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

باقی رہی یہ بات کہ حفظ کے ساتھ عالم ہونا بھی ضروری ہے تو یہ بات نہ خود حدیث میں مذکور ہے اور نہ شارحین نے اس قید کا اضافہ کیا ہے۔

 

مرقاۃالمفاتيح فی شرح المصابيح (3/ 88)میں ہے:

«قوله: "فاستظهره”، (استظهره): إذا حفظ القرآن، و (‌استظهر): إذا طلب المظاهرة، وهي المعونة، و (‌استظهر): إذا احتاط في الأمر وبالغ في حفظه وصلاحه، وهذه المعاني الثلاثة جائزة في هذا الحديث؛ يعني: من حفظ القرآن، وطلب القوة والمعاونة في الدين منه، واحتاط في حفظ حرمته واتباع أوامره ونواهيه.

قوله: "وشفعه” بتشديد الفاء؛ أي: وقبل شفاعته»

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (5/ 1663)میں ہے:

قوله: (فاستظهره) (نه): أي حفظه، يقال: قرأت القراَن عن ظهر قلبى، أي قرأته من حفظى. (مظ): (‌استظهر) إذا حفظ القراَن، واستظهر إذا طلب المظاهرة، وهي المعاونة، واستظهر إذا احتاط في الأمر وبالغ في حفظه، وإصلاحه. وهذه المعانى الثلاثة جائزة في هذا الحديث، يعنى من حفظ القراَن، وطلب القوة والمعاونة في الدين منه، واحتاط في حفظ حرمته واتباع أوامره ونواهيه. وأقول: بل المعانى الثلاثة كلها واجبة الرعاية في الحديث لشهادة الفاءين، فالأولي جعلت القراءة سبباً للاستظهار فلا تكون القراءة كذلك، حتى يلازم ويواظب عليها، والثانية جعلت الاستظهار المسبب عن القراءة سبباً لمقتضى العمل بتحليله وتحريمه، ودعوة الناس إليه، وذلك من مراتب الأنبياء، ومن ثم قرن الشفاعة، وهي السؤال في التجاوز عن الذنوب والجرائم بجزاء الشرط، وفي قوله: (قد وجبت له النار) تتميم ومبالغة لمعنى قبول الشفاعة، ورد لمذهب المعتزلة في أن الشفاعة في رفعة المنزلة لا في وضع الوزر، والوجوب ها هنا علي سبيل المواعدة

لمعات التنقيح فی شرح مشكاة المصابيح (4/ 559)میں ہے:

قوله: (فاستظهره) أي: حفظه، وفي (القاموس) (3): ‌استظهر: استعان من ظهر القلب، أي: حفظًا بلا كتاب.

وقوله: (أحل حلاله وحرم حرامه) أي: عمل به أو اعتقده»

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 218)میں ہے:

«واللفظ المذكور لأحمد والترمذي، وفي رواية لأحمد من تعلم القرآن فاستظهره وحفظه، ولابن ماجه ‌من ‌قرأ القرآن وحفظه. قال السندي: ‌من ‌قرأ القرآن أي غيباً ولو بالنظر وقوله "حفظه” أي بمراعاة بالعمل به والقيام بموجبه، أو المراد بالحفظ قراءته غيباً ولا يتركه، ويحتمل أن من داوم على قراءته حتى حفظه، وعلى الوجهين ينبغي أن يعتبر مع ذلك العمل به أيضاً إذ غير العامل يعد جاهلاً، ورواية الترمذي صريحة في اعتبار أنه يقرأ بالغيب وإتيانه به-انتهى. (فأحل حلاله وحرم حرامه) أي اعتقد حلاله حلالاً وحرامه حراماً، وليست هذه الكلمة عند أحمد وابن ماجه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved