• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مناسخہ کی ایک صورت

استفتاء

میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد(ایک بیٹی) ہوں میرے والد کو میرے ایک تایا نے دو چھوٹے مکان ہدیہ کئے تھے میرے والد کو فوت ہوئے تیس سال گزر گئے ہیں وہ مکان میرے اور میری والدہ کے پاس ہی رہےہیں،میرے والد کی وفات کے بعد میرے ایک تایانے ان مکانوں میں سے اپنا حصہ مانگا تھا تو میری والدہ نے کہا تھا کہ جب ہم مر جائیں گے تو ویسے ہی آپ لوگوں کو سب کچھ مل جائے گا۔اب میری والدہ بھی وفات پا چکی ہیں،میں ان مکانوں میں شرعی حق داروں کو ان کا حصہ دینا چاہتی ہوں میرے والد کی وفات کے وقت ان کے ورثاء میں ایک بیوہ، ایک بیٹی، دوسگےبھائی، ایک سگی بہن تھیں اور ایک ان کے سوتیلے بھائی تھے والدین پہلے وفات پا چکے تھے۔

میرے والد کی وفات کے بعد ایک سگے تایافوت ہوئے ان کے ورثاء میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، بعد میں ان کی بیوہ بھی فوت ہو گئیں ۔

پھردوسرے تایا فوت ہوئے ان کے ورثاء میں ایک بیوہ، چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں پھر میری پھوپھی فوت ہوئیں ان کے ورثاء میں تین بیٹے، دو بیٹیاں ہیں، خاوند پہلے فوت ہوگئے تھے۔

اب میری والدہ فوت ہوئی ہیں اور ورثاء میں ایک بیٹی، پانچ بہنیں ہیں۔

  1. میرے والد کے ترکے میں کس کا کتنا حصہ بنتاہے؟
  2. کیا سوتیلے بھائی اور ان کی اولاد کو میرے والد کے ترکہ میں سے حصہ ملے گا؟
  3. ہم نے اپنی گزر بسر کے لیے ایک مکان کرائے پر دےرکھا تھا آج تک جتنا کرایا آتا رہا کیا وہ بھی تقسیم کرنا ہوگا؟
  4. کیا چچا کی وراثت میں بھتیجی کا حصہ ہوتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. مذکورہ صورت میں آپ کے والد کے کل ترکہ کے3520 حصے کرکے ان میں سے 1980حصے یعنی%56.25آپ کا ہےاور176حصے یعنی%5،%5آپ کے ان تایا کے ہربیٹے کو ملیں گے جن کی بیوہ فوت ہوچکی ہیں۔اور 88حصےیعنی% 2.5،%2.5آپ کےانہی تایا کی ہربیٹی کو ملیں گے ،اور66حصے یعنی %1.87آپ کے دوسرےتایا کی بیوہ کو ملیں گے جو حیات ہیں اور 84،84حصے یعنی %2.386،%2.386ان کے ہربیٹے کو ملیں گے اور42حصے یعنی% 1.193، %1.193ان کی ہربیٹی کو ملیں گے ۔

آپ کی پھوپھی کے ہربیٹے کو 66حصےیعنی%1.875ملیں گے اوران کی ہربیٹی کو 33حصے یعنی %0.937ملے گا جبکہ آپ کی ہر خالہ کا حصہ 44یعنی %1.25ہے۔

آپ کے والد کےترکہ میں سوتیلے بھائی کا حصہ نہیں ہے ۔

  1. سگے بھائی بہنوں کے ہوتے ہوئے سوتیلےبھائی بہنوں کا حصہ نہیں ہوتا۔

3.چونکہ وہ گھر صرف آپ کا اور آپ کی والدہ کا نہ تھا بلکہ اس گھر میں دیگر ورثاء بھی شریک ہیں، اس لیے اس گھر سے حاصل ہونے والے کرائے میں بھی دیگر ورثاء کا حق ہے۔ لہٰذا اگر تو آپ کو اور آپ کی والدہ کو دیگر ورثاء کی طرف سے صراحتاً یا دلالتاً مکمل کرایہ اپنے تصرف میں لانے کی اجازت تھی تو اب وہ کرایہ تقسیم نہیں ہوگا لیکن اگر دیگر تمام ورثاء یابعض ورثاء کی جانب سے (جب سے ان کا اس کرایہ میں حق بنتا ہو) آپ اور آپ کی والدہ کو مکمل کرایہ اپنے تصرف میں لانے کی صراحتاً یا دلالتاً اجازت نہ ہو تو اب انہیں وہ کرایہ تقسیم کر کے دینا ہوگا الا یہ کہ وہ معاف کر دیں اور کرایہ نہ لیں۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:لو اجّر الحد الشريکين المال المشترک لاخر و قبض الأُجرة يعطي الاخر حصَّته منها و يردّها إليه) لو اجر احد السريکين المال الشترک لاخر بلا اذن الشريک و قبض الاجرة فعطي شريکه الاخر حصَّة من بدل اليجار و يردها إليه و يشارک الشريک الاخر الموجر في بدل الايجار بنسبة حصّته في المال الشترک وقد قال بعض الفقهاء، انه اذا اجر الشريک المال المشترک بلا اذن الشريک علي الوجه المبين في هذه المادة و أخذ الاجرة فيملک الشريک الموجر حصة الشريک الاخر من بدل الايجار و لکن مبلک خبيث و انه ليس للشريک الاخر حقّ في أخذه حةته من الاجرة بطريق الحکم و القضاء، وقد افتي شيخ الاسلام علي افندي علي هذا الوجه، أمّا عند بعض الفقهاء فلا يملک الشريک المؤجر حصة شريکه الاخر و يشارک الشريک الاخر الشريک المؤجر في بدل الايجار بنسبة حصّته ويکون الشريک المؤجر مجبوراً علي أداء ذلک لشريکه و أنّ لشريک الاخر أن يسحصل علي حقه هذا بواسطة الحکم و القضاء  (واقعات المفتين في الاجارة و النقروي فيها) و يفهم من ظاهر عبارة هذه المادة أن المجلّة قد اختارت القول الثاني کما أن دائرة الفتوي في الوقت الحالي تفتي بموجب هذا القولدرر الحکام شرح مجلۃ الاحکام(3/31) میں ہے:قيل شرحاً (بلا إذن الشريک) لانّه إذا أجّر باذن شريکه يکون الشريک المؤجر قد أجّر حصته أصالة و حصّة شريکه وکالة فيجب أن يقسم بدل الإجارة علي موجب المادةدرر الحکام شرح مجلۃ الاحکام(3/31)المسالة الثانية، هل إنّ بد الشريک المؤجر علي بدل الإيجار العائد للشريک الاخر في هذه المادة هي يد أمانة فلذلک إزا تلف بدل الايجار في يده بعد القبض بلا تعدّ ولا تقصير لا يلزمه ضمان کما هو الحال في المال المقبوض من جهة الوکالة، او أنّ يده ضمان فلذلک إذا تلف بدل الايجار في يد الشريک المؤجر بعد قبضه له بلا تعد و لا تقصير يلزمه ضمان؟ ، إنّ يد الضمان هي أعلي من يد الأمانة، و أظن أنّه يجب أن نقبل أنها يد أمانة حتي نجد نقلاً و دليلاً علي أنها يد ضمان(الشارح)

  1. چچا کی وراثت میں بھتیجے کا حصہ ہوتا ہے بھتیجی کا حصہ نہیں ہوتا۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

8 x 5 = 40 x 44 = 1760 x 2 = 3520

بیوہبیٹیایک سگا بھائیدوسرا سگا بھائیسگی بہنسوتیلا بھائی
8/12/1باقیمحروم
1 x 54 x 53 x 5
5 x 4420 x 4466153 x 44
220 x 2880 x 2132
4401760

ایک سگا بھائی

6 x 44 = 264 x 2 = 528                                                        6 x 44 = 264 x 2 = 528

 

بیٹے 2بیٹیاں2
2 + 2 x 441 + 1 x 44
88 + 88 x 244 + 44 x 2
176 _+ 17688 + 88

دوسرا سگا بھائی

8 x 11 = 88 \ 44 x 3 = 264 x 2 = 528              6\3 x 44 = 264 x 2 = 528

بیوہبیٹے 4بیٹیاں 3
8/1باقی
1 x 117 x 11
11 x 3 14 +14+14+14×37+7+7 x 3
33 x 242+42+42+42 x 221 + 21 + 21 x 2
6684 + 84 + 84 + 8442 + 42 + 42 + 42

سگی بہن

2 x 33 = 264 8\                                                                     132\ 33 x 2 = 264

بیٹے 3بیٹیاں 2
2 + 2 + 2 x 331 + 1 x 33
66 + 66 + 6633 + 33

آپ کی والدہ

 2 x 5 = 10 x 44 = 440                                                                    44  

بیٹی 1بہنیں 5
½باقی
1 x 51 x 5
5 x 441 + 1 + 1 + 1 + 1 x 44
22044 + 44 + 44 + 44 + 44

الاحیاء

آپ کی5 خالائیںبیٹی (یعنی آپ سائلہ)پہلے سگے بھائی کے دو   بیٹےپہلے سگے بھائی کی   3بیٹیاںدوسرے سگے بھائی کی بیوی
44فی کس1980176فی کس88فی کس66

 

دوسرے سگے بھائی کے 4بیٹےدوسرے سگے بھائی کی 3بیٹیاںبہن کے 3بیٹےبہن کی 2بیٹیاں
84 فی کس42 فی کس66فی کس33فی کس

 

نوٹ: آپ کے جن تایا کی بیوہ کا انتقال ہو گیا ہے چونکہ بیوہ کے ورثاء اور تایا کے ورثاء ایک ہیں اس لیے بیوہ کا حصہ علیحدہ نہیں نکالا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved