• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مناسخہ اور وارث کے لیے وصیت کی ایک صورت

استفتاء

ہماری نانی جان (***) کا انتقال ہوا۔ ان کی وراثت میں ایک مکان تھا جو 3 یا 3.5 مرلے کا ہے۔ نانی جان کی وفات کے وقت ان کی اولاد میں 6 بچے تھے (4 بیٹے ***، ***، ***، *** اور 2 بیٹیاں ***، ***) جو نانی جان کے انتقال کے وقت زندہ تھے۔ سب سے پہلے ایک بیٹے *** کا انتقال کراچی میں ایک ایکسیڈنٹ میں ہوگیا جو غیر شادی شدہ تھے۔ پھر ایک بیٹی *** کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء میں 2 بیٹے ***، *** اور 2 بیٹیاں ***، *** تھے، *** کے شوہر (***) کا انتقال اس سے پہلے ہی ہوگیا تھا۔ پھر نانی جان کے بیٹے *** کا انتقال ہوگیا جو غیر شادی شدہ تھا۔ پھر نانی جان کی دوسری بیٹی (ہماری والدہ) کا انتقال ہوگیا ان کے شوہر (ہمارے والد) بھی ان سے پہلے ہی وفات پاگئے تھے، ان کا ایک بیٹا (***۔ ***) ہے جو حیات ہے۔پھر نانی جان کے بیٹے *** کا انتقال ہوگیا ورثاء میں چار بچے (تین بیٹے، ایک بیٹی) ہیں ۔ *** صاحب کی اہلیہ ان کے انتقال کے وقت زندہ تھی لیکن کچھ عرصہ بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا تھا، *** صاحب کی اہلیہ کے ورثاء بھی وہی تھے جو *** صاحب کے تھے۔  ان کی اہلیہ کے والدین پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ پھر نانی جان کے بیٹے *** صاحب کا انتقال ہوگیا یہ بھی غیر شادی شدہ تھے۔

نانی جان کی ایک عدد وصیت بنام *** ***موجود ہے (وصیت کی کاپی ساتھ لف ہے) جس میں نانی جان نے مکان کا نصف حصہ بطور خدمت اور جہیز کے *** کو دیا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بیٹی *** نے بھائی (جو مکان میں رہ رہا ہے) کی ساری صورتحال کو دیکھ کر وصیت کو مؤخر رکھا۔ اب وراثت کی تقسیم تفصیلا درکار ہےاور میری والدہ کے لیے کی گئی اس وصیت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

تنقیح: نانی جان کے شوہر (نانا جان) اور نانی جان کے والدین نانی جان سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔

وصیت کی عبارت:

وصیت نامہ

’’منکہ مسماۃ صابراں بیگم دخت***، بیوی میاں کرم الٰہی ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے حسبِ حیثیت پسر اول ودختر اول کی شادیوں پر جو کچھ کرسکتی تھی کیا اب تین پسران محمد ***، محمد ***، محمد *** تاحال غیر شادی شدہ ہیں، میرے فرمانبردار اور ہمدرد ہیں، میں ان پر ہر طرح راضی خوش ہوں، ان کے مشورہ اور ذاتی خواہش کے مطابق مکان نمبر صدر محولہ بالا کے جملہ حقوق ہر قسم ملکیت من مقرہ کے نصف حصہ مکان کی مسمات *** بیگم *** *** دوئم کو واحد مالکہ قرار دیکراقرار کرتی ہوں اور لکھ دیتی ہوں کہ جب تک حیات ہوں مکان کی مالکہ ہوں، میری فوتگی کے بعد نصف مکان کی واحد مالکہ مسمات ***ہوگی اور باقی نصف مکان ملکیت دیگر وارثان جائز وقانونی کا مطابق شریعت اسلامیہ ہوگا۔چونکہ دخترم ہذا نے میری بڑی خدمت کی ہے اور والد کی فوتگی کے بعد مجھے دونوں حقوق مادری وپدری ادا کرنا ہیں اس لیے چاہتی ہوں کہ بچی کا کوئی حق میرے ذمہ نہ رہ جائے۔ وصیت ہذا سے میرے پسران متذکرہ بھی اتفاق کرتے ہیں اس لیے ان کے دستخط برحاشیہ کروا دیئے ہیں لہٰذا وصیت نامہ ہذا برضامندی خود بلا تحریک واجبار غیرے سندا تحریر کردی ہے کہ بعد وفاتم اس پر عمل کیا جائے۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آدھے مکان کے 240 حصے کیے جائیں گے جن کی ورثاء میں تقسیم مندرجہ ذیل طریقے سے ہوگی اور باقی آدھے مکان کی وصیت کو نانی کی وفات کے بعد اگر باقی ورثاء نے اپنی زبان سے قبول کرلیا تھا یا موجودہ ورثاء اس کو قبول کرلیں تو اگر سارے ورثاء قبول کرلیں تو یہ باقی آدھا مکان اور اگر بعض ورثاء قبول کرلیں تو قبول کرنے والوں کے حصوں کے بقدر یہ مکان صرف اس وارث کا ہوگا جس کے لیے اس کی وصیت کی گئی ہے اور اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا اور اگر نانی کی وفات کے بعد نہ باقی ورثاء نے اس وصیت کو زبان سے قبول کیا تھا اور نہ موجودہ ورثاء اس وصیت کو قبول کرنے پر تیار ہیں تو یہ باقی آدھا مکان بھی اسی تناسب سے تقسیم ہوگا جس سے پہلا آدھا تقسیم ہوگا ۔

توجیہ: وارث کے لیے وصیت کا شرعا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ وہ وصیت دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے، لہٰذا اگر سارے ورثاء اجازت دے دیں تو کل وصیت پر اور بعض ورثاء اجازت دے دیں تو اجازت دینے والوں کے حصوں کے بقدر اس وصیت پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved