- فتوی نمبر: 7-376
- تاریخ: 15 ستمبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > مضاربت
استفتاء
غلہ منڈی میں بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ بولی میں کوئی آڑھتی دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے یا کسی اور وجہ سے دو، تین سو روپے زیادہ کی بولی دے دیتا ہے اور اگر اس پر اعتراض کیا جائے کہ بلاوجہ منڈی کے ریٹ سے زیادہ کیوں لگا رہے ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں فروخت کر لوں گا میرے پاس گاہک ہے۔ بلاوجہ زیادہ قیمت لگانے سے پوری منڈی کا ریٹ خراب ہوتا ہے۔ یہ آدمی دوسرے کو تنگ کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے ورنہ تو اسے خود بھی مالی نقصان ہوتا ہے کیونکہ باہر سے جو بیوپاری آئے گا وہ پہلے کئی لوگوں سے ریٹ لے گا۔ بلاوجہ زیادہ بولی دینے والا اگر اسے کہے کہ مجھے مثلاً 3300 میں پڑی ہے تو وہ بیوپاری پوچھے گا کہ منڈی کا ریٹ تو 3000 ہے تمہیں 3300 میں کیسے پڑی؟ اس آدمی کا کسی کو تنگ کرنے کے لیے بولی میں منڈی کے ریٹ سے زیادہ بولی دینا شریعت کی نگاہ میں کیسا ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مارکیٹ یا منڈی میں بیٹھے ہوئے شخص کا کسی چیز کو منڈی کے عام ریٹ سے اتنی کمی یا زیادتی کے ساتھ خریدنا یا بیچنا کہ جس سے عام مارکیٹ یا منڈی والوں کو ضرر اور نقصان ہو، یہ جائز نہیںہے۔
مؤطا الإمام مالک روایة محمد بن الحسن اشیبانی :279
عن سعید بن المسیب، أن عمر بن الخطاب مر علی حاطب بن أبی بلتع و هو یبیع زبیباله بالسوق فقال له عمر: إما أن تزید في السعر، و إما أن ترفع من سوقنا.
”ترجمہ: حاطب بن ابی بلتع رضی اللہ عنہ بازار میں کشمش فروخت کر رہے تھے۔ حضرت عمر ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ یا تو قیمت زیادہ کرو (یعنی مارکیٹ ریٹ کے مطابق بیچو) یا ہمارے بازار سے چلے جائو (کسی اور جگہ جا کر بیچو)۔”
…………………………………………… واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
© Copyright 2024, All Rights Reserved