• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مناسخہ کی ایک صورت

استفتاء

میرے والد صاحب کا جب انتقال ہوا تو کچھ زرعی زمین ان کے نام تھی ۔ ہم دوبھائیوں کی ایک ہی بہن تھی۔ وہ اس وقت حیات تھی ۔ والدہ صاحبہ اب بھی حیات ہیں۔بڑے بھائی نے خود بھی وہ جائیداد اپنے اور میرے نام انتقال کروالی۔ اور بہن سے بعد میں رسمی طور پر پوچھ لیا۔ کہ اگر آپ جائیداد میں سے حصہ لینا چاہتی ہیں تو لے لیں۔ بہر حال بہن اور والدہ کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل بہن کا انتقال ہوگیا۔ اب اس کا خاوند اور تین بیٹے حیات ہیں۔ والدہ صاحبہ بھی ابھی حیات ہیں۔ اب میں نے والد صاحب کی آدھی جائیداد جو وارثت میں مجھے آئی ہے۔ فروخت کردی ہے۔ اور میں چاہتاہوں کہ بہن اور والدہ صاحبہ کا حصہ اس رقم میں سے دے دوں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل امور میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔

1۔والدہ صاحبہ کا اس رقم میں کتنا حصہ ہے۔

2۔بہن کاحصہ کتنا ہے۔ اور اس حصہ کو ان کی فوتگی کے بعد ان کے خاوند اور تین بیٹوں میں کس حساب سے تقسیم کروں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے حصہ میں جو آدھی  جائیداد وراثت میں آئی اس کی قیمت کے  40 (چالیس) حصے کیجئے۔ اس میں سے  5 حصے والدہ کو دیجئے اور 7 حصے آپ کی بہن کے ہیں۔7حصوں کا ایک چوتھائی یعنی 1.75حصہ  شوہر کا ہے اور 5.25حصے بہن کے 3بیٹوں کے درمیان برابر برابر تقسیم  ہوں گے ۔40میں سے 28حصے  آپ کے ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved