- فتوی نمبر: 10-22
- تاریخ: 16 مئی 2017
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
ایک شخص نے قسطوں پر بس خریدی ہوئی ہے۔ جس کی کچھ قسطیں ابھی باقی ہیں۔ بس کے مختلف اخراجات ٹائر، مکینک کی اجرت وغیرہ کی وجہ سے اس پر مزید قرضہ چڑھ گیا ہے۔ جس کی ادائیگی سے وہ قاصر ہے۔ وہ شخص بددیانت نہیں ہے لیکن اس کی آمدنی اتنی ہے کہ وہ صرف اپنے گھر کے اخراجات نکال رہا ہے۔ قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت اس سے نہیں بن رہی۔ اگر وہ بس بیچ دے تو اسے سارے قرضے ادا کرنے کے بعد 15 لاکھ روپے بچیں گے لیکن اس کا روز گار ختم ہو جائے گا۔ اس نے میرے بھی پیسے ادا کرنے ہیں۔
تو کیا میں یہ کر سکتا ہوں کہ اسے اپنی زکوٰۃ کی رقم دے کر اس سے قرضہ وصول کر لوں۔ اسے ایک مفتی صاحب نے بتایا ہے کہ تم زکوٰۃ وصول کر کے قرضہ ادا کر سکتے ہو۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت اس آدمی کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
الفتاوى البزازية على هامش الفتاوى الهندية: (4/85)
ولو كان له ضيعة قيمتها الاف ولا يحصل منه ما يكفي له و لعياله اختلف فيه قال ابن مقاتل يجوز صرف الزكاة إليه.
رد المحتار (3/346):
وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لا تكفيه ولعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة عند محمد رحمه الله تعالى و عند أبي يوسف رحمه الله لا يحل.
وفيه أيضاً (2/347):
سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دور غلتها ثلاثة آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة، يحل له أخذ الزكاىة وإن كانت قيمتها تبلغ الوفا، وعليه الفتوى، وعندهما لا يحل، ملخصاً.
فتاویٰ دار العلوم دیوبند (6/174) میں ہے:
’’سوال: جس شخص کو آمدنی کافی ہو لیکن وہ مقروض ہو اور قرض ادا نہ کر سکے تو اس کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہو گی یا نہیں؟
جواب: اس صورت میں بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔‘‘
فتاویٰ محمودیہ (9/572) میں ہے:
’’سوال: ایک شخص کی بہت سے زمین ہے مگر وہ آباد نہیں، تو اس شخص کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب: جبکہ ان زمینوں سے اس کی حوائج پوری نہیں ہوتیں اور وہ مال نامی بھی نہیں تو اس کو زکوٰۃ دینا درست ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved