• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مقروض قرض ادا کیے بغیر فوت ہوگیا تو قرض کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع درایں مسئلہ  کہ بندہ کے والد مرحوم نے زید   کو بغرض کار و بار کچھ رقم دی تھی  ۔ کچھ ماہ گزرنے کے بعد انہوں نے کہا  کہ آپ کی دی ہوئی رقم میرا ایک ملازم لے کر بھاگ گیا ہے۔ لہذا انہوں نے اصل رقم  بھی واپس نہیں  کی۔   اور سوائے چند ماہ نفع کی رقم ادا کرنے کے  راس المال پر کوئی نفع بھی ادا نہ کیا ۔وہ ادائیگی کے لئے لیت ولعل کرتے رہے اور در ایں اثناء علیل ہو گئے۔اور مدت بیس سال یا لگ بھگ یا اس سے کم مدت تک ادائیگی نہ کی اور بعد ازاں انتقال کر گئے ۔ جبکہ متوفی نے یہ معاہدہ زبانی کیا تھا اور وہ اپنے معاہدہ کی رو سے چند ماہ منافع کی رقم میں سے کچھ منافع بھی ادا کرتے رہے۔ نیز متوفی نے ایسے ہی چند دیگر افراد سے بھی کاروبار کے لئے رقوم لے رکھی تھیں جن کے رأس المال کی بھی مکمل ادائیگی نہ کی ۔ جبکہ ان کی اولادکو مرنے والے نادہندہ شخص کا مترو کہ گھر اور گاڑی وغیرہ ترکہ اور وراثت کی صورت میں حاصل ہوئے ہیں  اور وہ اپنے مرحوم والد کے ذمہ واجب الاداء رقم واپس کرنے میں ترد داور تامل کا مظاہرہ کررہے ہیں  ۔ جبکہ ان کا روباری معاملات کے بیسیوں لوگ شاہد اور گواہ کے طور پر موجود بھی ہوں ۔ وارث اپنے والد کے واجبات ادا کرنے سے انکاری ہے ۔ ایسی صورت مسئولہ میں اس کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ تفصیلاً بیان فرمائیں اور برائے کرم مسئلہ مذکورہ کا وافی وشافی حکم شرعی بیان فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

تنقیح : ہمارے والد صاحب نے 2200 امریکی ڈالر زید  کو دئیے تھے fragrance dispenser  (فریگرنس ڈسپنسر) کے  کاروبار کے لیے ۔دوتین ماہ تک انہوں نے چھ ، سات ہزار روپے  نفع ادا کیا تھا   اور بس ۔

زید مرحوم کے بیٹے میجر بلال صاحب سے دارالافتاء کی طرف سے  متعدد بار  اس سلسلہ میں رابطہ کیا گیا   لیکن انہوں نے  اس بارے میں  کوئی   تحریری موقف نہیں دیا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  اگر واقعتاً   زید مرحوم نے وہ رقم لی تھی اور اس بات کے بیسیوں لوگ گواہ بھی ہیں  اور وہ رقم انہوں نے اپنی زندگی میں ادا نہیں کی تو   ان کے ورثاء پر لازم ہے کہ  وہ رقم ان کے ترکہ میں سے ادا کریں  چاہے ان کا سارا ترکہ اس  کی ادائیگی میں لگ جائے ۔

فتاوی شامی  (4/ 283) میں ہے :

(‌عليه ‌ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) …….. (قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم»

الاختيار لتعليل المختار(5/ 85) میں ہے :

«يبدأ من تركة الميت بتجهيزه ودفنه على قدرها ثم تقضى ديونه، ثم تنفذ وصاياه من ثلث ماله، ثم يقسم الباقي بين ورثته»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved