• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مقتول کے بیٹے کا صلح کرنا اور مقتول کے بھائی کا اس پر راضی نہ ہونا

استفتاء

چار بھائی تجارت میں شریک تھے،انہوں نے  دوسری قوم سے جنگ کی تو  ان بھائیوں میں سے ایک بھائی  مارا گیا ، بعد میں یہ  بھائی تجارت کے لحاظ سے جدا ہوگئے  اب اس مقتول کے ایک بیٹے نے  بڑے ہو کر صلح کرلی تو سوال یہ ہے کہ:

1۔ یہ صلح معتبر ہوگی؟ جبکہ مقتول کے تینوں بھائی یہ صلح نہیں مانتے۔

2۔اگر مقتول کے بیٹے  نے دیت مانگی تو دیت میں مقتول کے بھائی شریک ہوں گے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)یہ صلح   معتبر ہوگی۔

(2)بھائی دیت میں شریک نہیں ہوں  گے۔

توجیہ: دیت صرف ورثاء کا حق ہے  اور بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھائی وارث نہیں بنتے اس لیے مذکورہ صورت میں بھائی  دیت میں شریک  نہیں ہوں گے۔

شامی(10/ 203) ميں  ہے:

(‌ويسقط ‌القود ‌بموت ‌القاتل) لفوات المحل (ويعفو الأولياء ويصالحهم على مال ولو قليلا، ويجب حالا) عند الإطلاق (وبصلح أحدهم وعفوه، ولمن بقي) من الورثة (حصته من الدية) في ثلاث سنين على القاتل هو الصحيح، وقيل على العاقل ملتقى

فتاویٰ تنقیح الحامدیہ (2/ 252) ميں  ہے:

(سئل) في رجل قتل رجلا عمدا بغير حق بآلة جارحة من حديد وثبت عليه ذلك بوجهه الشرعي ثم عفا عنه بعض أولياء المقتول الوارثين له فهل يسقط القصاص بعفوه ولمن بقي من الورثة حصته من الدية؟

(الجواب) : نعم ويسقط بصلح أحدهم وعفوه وللباقي حصته من الدية درر من باب ما يوجب القود ثم قال في شرحه: ولا حصة للعافي لإسقاط حقه. اهـ. والمسألة في التنوير والمنح والملتقى وغيرها والدية تورث اتفاقا أشباه من الفرائض وعفو الأولياء قبل موت المجروح يصح كما يصح عفو المجروح لوجود السبب وصحة الإبراء تعتمد وجود السبب بزازية قبيل الشجاج: عفا الولي عن نصف القصاص سقط الكل ولا ينقلب الباقي مالا حاوي الزاهدي من فصل أمر الغير بالجناية

ہندیہ (6/ 20) ميں  ہے:

‌ومن ‌عفا ‌من ‌ورثة ‌المقتول عن القصاص رجل، أو امرأة، أو أم أو جدة، أو من سواهن من النساء، أو كان المقتول امرأة فعفا زوجها عن القاتل فلا سبيل إلى القصاص كذا في السراج الوهاج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved