- فتوی نمبر: 25-341
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ایک جاننے والے صاحب کے والد صاحب کو بیس سال پہلے ایک شخص نے قتل کردیا تھا قتل کرکے وہ ملک سے فرار ہوگیا اب بیس سا ل کے بعد وہ معافی چاہتا ہے اور صلح کرنا چاہ رہا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ(1) کتنی رقم صلح کے طور پر لی جاسکتی ہے اور دوسرا یہ کہ(2) وہ رقم کن کن میں تقسیم ہوگی۔
تنقیح:قاتل نے ان کو پستول سے ماراتھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)مذکورہ صورت میں مقتول کے ورثاء اگر مال کے بدلے میں قاتل سے صلح کرنا چاہتے ہیں تو یہ جائز ہے اور اس مال کی شرعاً کوئی حد مقرر نہیں بلکہ آپس کی رضا مندی سے جتنی بھی رقم طے ہوجائے اس پر صلح کرسکتے ہیں اگرچہ دیت سے بھی زیادہ طے ہوجائے۔ (2) یہ رقم مقتول کے ان تمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی جو اس قتل کے وقت زندہ تھے اور اگر ان کے قتل کے بعد کوئی وارث فوت ہوگیاہو تو اس فوت ہونے والے کا حصہ اس کے ورثاء کو ان کے شرعی حصوں کے بقدر ملے گا۔
بدائع الصنائع (298/6) میں ہے:ومنها الصلح على مال لأن القصاص حق للمولى ولصاحب الحق أن يتصرف في حقه استيفاء وإسقاطا إذا كان من أهل الإسقاط والمحل قابل للسقوط ولهذا يملك العفو فيملك الصلح ولأن المقصود من استيفاء القصاص وهو الحياة يحصل به لأن الظاهر أن عند أخذ المال عن صلح وتراض تسكن الفتنة فلا يقصد الولي قتل القاتل فلا يقصد القاتل قتله فيحصل المقصود من استيفاء القصاص بدونه وقيل إن قوله تبارك وتعالى { فمن عفي له من أخيه شيء } الآية نزل في الصلح عن دم العمد فيدل على جواز الصلح وسواء كان بدل الصلح قليلا أو كثيرا من جنس الدية أو من خلاف جنسها حالا أو مؤجلا بأجل معلوم أو مجهول جهالة متفاوتة كالحصاد والدياس ونحو ذلك بخلاف الصلح من الدية على أكثر مما تجب فيه الدية أنه لا يجوز .فتح القدیر(175/9) میں ہے:وإذا عفا أحد الشركاء من الدم أو صالح من نصيبه على عوض سقط حق الباقين عن القصاص وكان لهم نيصيبهم من الدية وأصل هذا أن القصاص حق جميع الورثة وكذا الدية……….ولأنه حق يجري فيه الإرث حتى أن من قتل وله ابنان فمات أحدهما عن ابن كان القصاص بين الصلبي وابن الابن فيثبت لسائر الورثة والزوجية تبقى بعد الموت حكما في حق الإرث.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved