• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مردبیوی کودیئے گئےہبہ شدہ پلاٹ کو واپس نہیں لے سکتے

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

لڑکے کا بیان

احوال یہ ہیں کہ بندہ کی پہلی بیوی نے اس شرط پر دوسری شادی کی اجازت دی کہ بندہ کا پلاٹ عددی 5مرلہ واقع لاہور موٹروے سٹی بیوی کے نام لگایا جائے ،شرط کے مطابق بندہ نے وہ پلاٹ پہلی بیوی کے نام لگادیا۔اور دوسری شادی کا اجازت نامہ پہلی بیوی نے سرکاری طور پر حریری دے دیا لیکن اس میں پلاٹ کا ذکرنہ کیا، تحریری اجازت کے بعد بندہ نے دوسری شادی کرلی (دو سری شادی کی وجہ پہلی بیوی کے ہاں بار بارحمل ضائع ہونا اور اولاد نہ ہونا تھی) دوسری شادی والے دن پہلی بیوی کو اس کی مرضی کے مطابق میں اس کے گھر (میکے) ہنسی خوشی چھوڑ کر آیا، پہلی بیوی اس وعدہ پر میکے گئی کہ دس پندرہ دن بعد آ جاؤں گی لیکن سوا سال ہونے کو ہے کہ پہلی بیوی آنے کا نام نہیں لے رہی ،خوب منت سماجت کی اور خاندان کے معززین نے بھی اس کو خوب سمجھایا کہ خاوند کے گھر واپس آ جائے لیکن پہلی بیوی مان نہیں رہی اور اسی دوران خلع کا مطالبہ کردیا ہےاور متذکرہ پلاٹ بھی واپس کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔مزیدیہ کہ پلاٹ جب اس کے نام کیا گیا تھا تو گواہان (چچا ذوالفقار ،چچا لیاقت علی، اور میرے والد صاحب حافظ اصغر علی) کی موجودگی میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ خدانخواستہ پہلی بیوی کی فوت گی کی صورت میں یا کوئی انیس بیس ہوگی تو یہ پلاٹ مجھے واپس ملے گا۔ اس کے بھائیوں میں تقسیم نہ ہوگا تو بیوی کے سب بھائیوں نے کہا کہ تیرا پلاٹ ہمیں نہیں چاہیے لیکن اب میری پہلی بیوی خلع کیلئے عدالت سے رجوع کر چکی ہے اور پلاٹ واپس دینے کے لئے تیار نہیں۔ متذکرہ بالا حالات کے تحت شرعی طور پر پہلی بیوی خلع کے بعد پلاٹ کی حقدار ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بندہ کی رہنمائی فرمائی جائے کہ بندہ پلاٹ واپس لینے کا حقدار ہے یا نہیں؟

لڑکی کا بیان

محمود کی تمام باتیں زبانی کلامی ہیں۔ اس نے جو الزام لگایا کہ پہلی بیوی نے دوسری شادی کے اجازت نامے میں پلاٹ کا ذکر  نہ کیا،یہ مکمل جھوٹ ہے۔ دوسری شادی کی اجازت نامے کی تحریر یو،سی سیکرٹری نے محمود کے اور اس کے والد کے سامنے لکھی، میں تو گھر پر موجود تھی، مجھے تو پتہ بھی نہیں،یو،سی سیکرٹری نے گھر آکر مجھ سے اجازت نامے پر دستخط کروائے اور چلا گیا اگر پلاٹ کا کوئی ذکر کرنا تھاتو وہ ان کی ذمہ داری تھی اور دوسرا جو انہوں نے الزام لگایا کہ میں وعدہ کرکے اپنی والدہ کے گھر آئی ہوں کہ میں پندرہ دن میں واپس آ جاؤں گی جبکہ میں یہ بات حلفا کہنے کے لیے تیار ہوں کہ میں نے دس پندرہ دن میں واپس آنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا ،میں پلاٹ ان کو واپس دینے کے لئے تیار تھی کیونکہ ہم نے ایک عالم دین سے مشورہ کیا تھا کہ شوہر نے جو پلاٹ میرے نام کیا ہے اب میں اس سے علیحدہ ہونا چاہتی ہوں تو کیا مجھے وہ پلاٹ واپس کرنا پڑے گا تو انہوں نے جواب دیا جی ہاں پلاٹ واپس کرنا پڑے گا تو اس تناظر میں ہم نے یہ بات مسجد کی پنچایت میں بیٹھ کر کی کہ ہم آپ کا پلاٹ واپس کرنے کو تیار ہیں لیکن جب ہم نے آپ سے اس سوال کا جواب طلب کیا اور ہم نے آپ کو فریقین کے مابین جو تحریر ی اسٹام پیپر لکھا گیا وہ پیش کیا جس میں محمودنے کسی بھی قسم کی شرط کے بغیر صرف اور صرف دوسری شادی کی اجازت کے بدلے میں مجھے یہ پلاٹ میرے نام کیا ہے۔ میں سوا سال سے اپنی والدہ کے گھر ہوں اور اس دوران انہوں نے دو ماہ تک علاج کیلئے پانچ پانچ ہزار روپے دیئے اور وہ بھی یہ واپس مانگ رہے ہیں اور اس کے علاوہ مجھے کسی قسم کا کوئی خرچہ نہیں دیا، میں شدید جسمانی اور روحانی طور پر بیمار ہوں ،مجھے اپنے علاج کے لئے روپے کی ضرورت ہے، لہذا میں یہ پلاٹ بیچ کراپنا علاج کروانا چاہتی ہوں دوسری بیوی کو تو انہوں نے دو تولے سونا بنوا کر دیا اور جبکہ انہوں نے تو میرے حق مہر کا دو تولے سونا لے کر بھی بیچ دیا تھا اور وہ بھی مجھے واپس نہیں کیا، لہذا میری رہنمائی کی جائے کہ میں وہ پلاٹ جس کی میں قانونی ملکیت رکھتی ہوں تو کیا میں شریعت کے لحاظ سے اپنی ملکیت رکھ سکتی ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں میں دوسری شادی کی اجازت 5 مرلہ کا پلاٹ بیوی کو ہدیہ کرنے کے ساتھ مشروط تھی، بیوی نے دوسری شادی کی اجازت دے دی اور شوہر نے شرط پوری کرتے ہوئے بیوی کو پانچ مرلہ کا کا پلاٹ ہدیہ کردیا، شوہر کادعوی ہے کہ پلاٹ ہدیہ کرتے وقت یہ بھی طے ہواتھا کہ بیوی کی فوتگی کی صورت میں یا کوئی اورانیس بیس  ہو گئی تو مجھے(شوہر) کوپلاٹ واپس ملے گا، شوہر کا یہ دعوی درست بھی ہو تب بھی شوہر پلاٹ واپس نہیں لے سکتاکیونکہ ایک تو زوجیت ہبہ میں رجوع کرنے سے مانع ہے۔دوسرارجوع بھی بیوی کی فوتگی کے ساتھ مشروط ہے اور موہوب لہ ابھی فوت نہیں ہوا اور اگر فوت بھی ہو جائے تو موہوب لہ کا فوت ہو جانا ہبہ میں رجوع سے مانع ہے اور انیس بیس ہونے کی صورت میں واپسی کی بات کولیں تو اول تو انیس بیس کی وضاحت نہیں کہ اس سے کیا مراد تھی اور ثانیا زوجیت ہبہ میں رجوع سے مانع ہے۔غرض لڑکے لڑکی دونو کے بیان کے مطابق یہ پلاٹ لڑکی کا ہے ،لڑکے کو واپس لینے کا حق نہیں۔

چنانچہ فتاوی محمودیہ (جلد بست وچہارم،ص:68)میں ہے:

سوال:مولوی خواجہ حسین نے اپنے لڑکے احمد شریف کے انتقال کے بعد اپنی بیوی کے نام 30ایکڑ زمین کردی اس شرط پرکہ بہو تاحیات اس سے منتفع ہواور بعدوفات اراضی واپس کردے، اب خواجہ حسین کا انتقال ہوگیا تو بہوہبہ شدہ زمین اپنی لڑکی محبوب بیوی کے نام منتقل کرنا چاہتی ہے تو یہ درست ہے یا نہیں؟

جواب: مولوی خواجہ حسین صاحب نے بیس ایکڑ زمین جو اپنی بہو( بڑے لڑکے احمد شریف مرحوم کی زوجہ) کے نام ہبہ کر کے اس کا پورا قبضہ کر ادیا ہے یہ ہبہ شرعاً صحیح ہوگیا، بیوہ اس کی مالک ہو گئی۔یہ شرط کہ بعد وفات زمین واپس کردی جائے، شرعاً معتبر نہیں،ابھی تو بیوہ حیات ہے اور وہ خود مالک ہے، اس سے واپس لینے کا حق نہیں، وہ جس کو چاہے دے سکتی ہے ،کسی کو روکنے کا اختیار نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved