- فتوی نمبر: 34-107
- تاریخ: 20 اکتوبر 2025
- عنوانات: عبادات > طہارت > غسل کا بیان
استفتاء
کیا مرد (شوہر) کے عورت (بیوی) کی شرمگاہ میں انگلی داخل کرنے سے عورت پر غسل واجب ہوجاتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر مرد کے عورت کی شرمگاہ میں انگلی داخل کرنے سے عورت کو شہوت نہ ہو تو عورت پر بالاتفاق غسل واجب نہیں ہوتا اور اگر اس سے عورت کو شہوت ہو تو اصل مذہب کے مطابق عورت پر غسل واجب نہیں جب تک انزال نہ ہو اور بعض اہل علم نے اس کو مختا رکہا ہے البتہ بعض اہل علم کے نزدیک اس صورت میں احتیاطاً عورت پر غسل واجب ہوگا لیکن ان حضرات کی یہ بات بطور بحث کے ہے کسی نقل پر مبنی نہیں نیز ان حضرات کی ذکر کردہ دلیل ” لان الشهوة فيهن غالبة ” بھی محل نظر ہے جیساکہ آگے آنے والے حوالوں میں سے مولانا مصطفیٰ بجنوریؒ کی کتاب ” طب اور اسلام” اور احسن الفتاویٰ کے حوالوں میں مذکور ہے لہٰذا اسے صرف احتیاط کے درجے میں تو لیا جاسکتا ہے وجوب کے درجے میں نہیں لیا جاسکتا۔
شامی(335,336/1) میں ہے:
(و) لا عند (إدخال أصبع ونحوه) كذكر غير آدمي وذكر خنثى وميت وصبي لا يشتهي وما يصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) على المختار
في الشامي:(قوله: على المختار) قال في التجنيس: رجل أدخل إصبعه في دبره وهو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء. والمختار أنه لا يجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع ليس آلة للجماع فصار بمنزلة الخشبة ذكره في الصوم، وقيد بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشهوة فيهن غالبة فيقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمها نوح أفندي. أقول: آخر عبارة التجنيس عند قوله بمنزلة الخشبة، وقد راجعتها منه فرأيتها كذلك، فقوله وقيد إلخ من كلام نوح أفندي، وقوله لأن المختار وجوب الغسل إلخ بحث منه سبقه إليه شارح المنية، حيث قال والأولى أن يجب في القبل إلخ، وقد نبه في الإمداد أيضا على أنه بحث من شارح المنية فافهم.
حلبی کبیر(صفحہ نمبر:46) میں ہے:
وفي وجوب الغسل بإدخال الإصبع في القبل أو الدبر خلاف والأولی أن یجب في القبل إذا قصد الاستمتاع بغلبة الشهوة لأن الشهوة فيهن غالبة فیقام مقام السبب وهو الإنزال دون الدبر لعدمها.
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح (ص:101)میں ہے:
“و” منها “إدخال أصبع ونحوه” كشبه ذكر مصنوع من نحو جلد “في أحد السبيلين” على المختار لقصور الشهوة “
وفي حاشيته: قوله: “على المختار” أي في الدبر ومقابله ضعيف وأما في القبل فذكر في شرح التنوير أن المختار عدمه أيضا وحكى العلامة نوح أن المختار فيه الوجوب إذا قصدت الإستمتاع لأن الشهوة فيهن غالبة فيقام السبب مقام المسبب فاختلف الترجيح بالنسبة لإدخال الإصبع في قبل المرأة أفاده السيد رحمه الله تعالى.
حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار(1/94)میں ہے:
(قوله علي المختار)يخالفه من جهة الترجيح في القبل ما ذكره نوح آفندي ونصه قال في التجنيس:رجل أدخل أصبعه في دبره وهو صائم إختلفوا في وجوب الغسل و القضاءوالمختار أنه لايجب الغسل ولا القضاءلان الاصبع ليس آلة الجماع فصار بمنزلة الخشبة وقيد بالدبر لان المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع لان الشهوة فيهن غالبة فيقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمهاأه.فقد اختلف الترجيح في القبل أبو السعود.
امداالاحکام(1/359)میں ہے:
سوال:آدمی کا عورت کی جائے مخصوص میں انگلی داخل کرنے سے بشہوت یا غیر شہوت صرف فاعل یا دونوں پر غسل فرض ہوگا یا نہیں؟
جواب:اگر انگلی داخل کرنےکے وقت عورت کی شہوت برانگیختہ ہوجائےتو ایک قول پر غسل واجب ہوجائے گا اور ایک قول میں واجب نہیں جب تک انزال نہ ہواور احتیاط غسل ہی میں ہے۔اور اگر شہوت برانگیختہ نہ ہو تو غسل کسی قول میں واجب نہیں اور فاعل پر ادخال اصبع پر بھی غسل نہیں۔
والمسئلة مذکورة فی شرح المنیة(ص44)وفی الدرر(1/171)وجعل فی الدر عدم وجوب الغسل هو المختار و فی الشامیة حکی عن نوح آفندی و شرح المنیة ان وجوب الغسل هو المختار و الله اعلم.
فتاوى رحیمیہ(4/28)میں ہے:
عورت کی شرم گاہ میں ہاتھ یا انگلی داخل کرنے سے غسل واجب ہو گا یا نہیں؟
سوال :عورت کی فرج داخل ( شرم گاہ) میں ڈاکٹر نی یادا یہ بغرض علاج یا تحقیق حمل کے واسطے ہاتھ یا انگلی داخل کرے یا عورت دو الگانے کے لئے خود اپنی انگلی داخل کرے تو عورت پر غسل لازم ہوگا یا نہیں؟ اگر شوہر یہ عمل کرے تو کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب : اگر یہ عمل علاجاً ہو چاہے ڈاکٹر نی کرے یا عورت خود کرے اور عورت کے اندر شہوت پیدا نہیں ہوئی تو محض ہاتھ یا انگلی داخل کرنے سے غسل واجب نہ ہوگا لیکن اگر عورت غلبہ شہوت سے بقصد استمتاع (یعنی لذت اندوز ہونے کے ارادے سے ) اپنی انگلی داخل کرے یا میاں بیوی بقصد استمتاع یہ عمل کریں ( اور شوہر انگلی داخل کرے) تو بعض فقہاء کے قول کے مطابق غسل واجب ہو جاتا ہے اور اس کو مختار بھی کہا گیا ہے لہذا اس صورت میں بہتر یہی ہے کہ عورت غسل کرے اسی میں احتیاط ہے (اور اگر عورت کو منی نکل آئی تو پھر یقینا غسل واجب ہو جائے گا ) ، در مختار میں ہے لا( يجب الغسل) عند ادخال اصبع (و نحوه کذکر غیر آدمی و ذكر خنثى وميت وصبى لايشتهي وما يصنع من نحو خشب (فى الدبروالقبل)على المختار (در مختار)
شامی میں ہے: (قوله: على المختار) قال في التجنيس: رجل أدخل إصبعه في دبره وهو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء. والمختار أنه لا يجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع ليس آلة للجماع فصار بمنزلة الخشبة ذكره في الصوم، وقيد بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشهوة فيهن غالبة فيقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمها نوح أفندي. أقول: آخر عبارة التجنيس عند قوله بمنزلة الخشبة، وقد راجعتها منه فرأيتها كذلك، فقوله وقيد إلخ من كلام نوح أفندي، وقوله لأن المختار وجوب الغسل إلخ بحث منه سبقه إليه شارح المنية، حيث قال والأولى أن يجب في القبل إلخ، وقد نبه في الإمداد أيضا على أنه بحث من شارح المنية فافهم (در مختار و شامی ص ۱۵۳ ، ص ۱۵۴ ج ۱، ابحاث الغسل)
طحطاوی علی الدر المختار میں ہے: ( قوله ولا عند ادخال اصبح ….. على المختار) (قوله علي المختار)يخالفه من جهة الترجيح في القبل ما ذكره نوح آفندي ونصه قال في التجنيس:رجل أدخل أصبعه في دبره وهو صائم إختلفوا في وجوب الغسل و القضاءوالمختار أنه لايجب الغسل ولا القضاءلان الاصبع ليس آلة الجماع فصار بمنزلة الخشبة وقيد بالدبر لان المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع لان الشهوة فيهن غالبة فيقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمهاأه.فقد اختلف الترجيح في القبل أبو السعود. (طحطاوي على الدر المختار ج 1 ص ۱۳۹ ابحاث غسل)
غایۃ الاوطار میں ہے: ولا عند ادخال اصبع ونحوه….. في الدير او القبل على المختار اورفرض نہیں نہانا وقت داخل کرنے انگلی اور اس کے مانند ۔۔۔الی قولہ بنا بر قول مختار کے دبر میں تو ترجیح متفق ہے مگر قبل میں ترجیح مختلف ہے اس واسطے کہ شیخ الاسلام ابو سعود نے نوح آفندی کے کلام سے نقل کیا ہے کہ ادخال قبل میں وجوب غسل کا مختار ہے جب کہ عورت شہوت رانی کا قصد کرے یعنی بدون انزال کے بھی غسل واجب ہے اس واسطے کہ عورتوں میں شہوت غالب ہوتی ہے تو سب کو مقام مسبب کے قائم کیا ۔
مراقی الفلاح میں ہے :“و” منها “إدخال أصبع ونحوه” كشبه ذكر مصنوع من نحو جلد “في أحد السبيلين” على المختار لقصور الشهوة “
طحطاوی میں ہے :وفي حاشيته: قوله: “على المختار” أي في الدبر ومقابله ضعيف وأما في القبل فذكر في شرح التنوير أن المختار عدمه أيضا وحكى العلامة نوح أن المختار فيه الوجوب إذا قصدت الإستمتاع لأن الشهوة فيهن غالبة فيقام السبب مقام المسبب فاختلف الترجيح بالنسبة لإدخال الإصبع في قبل المرأة أفاده السيد رحمه الله تعالى. (طحطاوي على مراقی الفلاح ص ۵۵ فصل عشرة اشياء لا يغتسل منها )
عمدۃ الفقہ میں ہے : اگر کوئی عورت شہوت کے غلبہ میں اپنے خاص حصہ میں کسی بے شہوت مرد یا جانور کے کسی خاص حصہ کو یا کسی لکڑی وغیرہ یا خنثی یا میت کے ذکر کو یا اپنی انگلی داخل کرے تب بھی اس پر غسل فرض ہو جائے گا خواہ انزال ہو یا نہ ہو مگر یہ شارح منیہ کی رائے ہے اور اصل مذہب میں بغیر انزال غسل واجب نہیں غسل کا حکم احتیاطا ًہے اصل مذہب عدم وجوب غسل کا ہے ( عمدۃ الفقہ ص 112 جلد اول) فقط واللہ اعلم بالصواب ۔
مسائل بہشتی زیور(65,66/1) میں ہے:
مسئلہ: اگر کوئی عورت شہوت کے غلبہ میں اپنے خاص حصہ میں کسی نابالغ بے شہوت لڑکے یا کسی جانور کے خاص حصہ کو یا کسی لکڑی وغیرہ کو یا اپنی انگلی کو داخل کرے تو اگر عورت کو انزال ہو جائے تو اس پر غسل فرض ہوگا اور اگر انزال نہ ہو تب بھی احتیاطاً اس پر غسل کرنا فرض ہوگا۔
طب اور اسلام مؤلفہ مولانا مصطفی بجنوریؒ،پسند فرمودہ مولانا اشرف علی تھانویؒ(ص:64)میں ہے:
سوال: اطباء کا ایک قول مشہور ہے کہ عورت میں شہوت بنسبت مرد کے زیادہ ہے، اس کی تائید ایک حدیث سے بھی کی جاتی ہے لیکن تحقیق کرنے سے ثابت ہوا کہ نہ یہ طبی تحقیق ہے اور نہ حدیث سے ثابت ہے۔ طبی تحقیق اس کے خلاف ہے ، دلیل یہ ہے کہ شہوت از جنس حرکت ہے اور حرکت کا آلہ حرارت ہے اور حرارت عورت میں بنسبت مردکے یقینا اور بالا تفاق کم ہے تو عورت میں شہوت زیادہ ہونا چہ معنی ؟
حکیم محمود خان صاحب دہلوی نے بھی “ضیاء الابصار” میں اس کی تردید کی ہے، اور کتب حدیث میں تلاش کی گئی تو یہ الفاظ ملے :
فصل ما بين لذة المرأة ولذة الرجل كاثر المخيط في الطين. الا أن الله يستر هن بالحياء (جمع الفوائد ص 225 جلد ا، باب العدل بين النساء).
وفي كنز العمال ص 354 كتاب النكاح بعينه ولفظه : فضلت المرأة على الرجل بتسعة وتسعين جزء من اللذة ولكن الله القى عليهن الحياء رواه البيهقي في شعب الايمان عن ابي هريرة.
وفي المقاصد الحسنة هذا اللفظ بعينه عن الطبراني الأوسط عن ابن عمر مرفوعا.
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کو جماع میں لذت بنسبت مرد کے بہت زیادہ آتی ہے لذت اور چیز ہے اور شہوت اور چیز ۔ شہوت میلان نفس الی الجماع کا نام ہے اور لذت نام ہے احساسِ کیفیت ملائمہ کا جو جماع سے پیدا ہوتی ہے، شہوت مقدم ہے جماع پر اور لذت موخر ، شہوت از قبیل فعل ہے اور لذت از قبیل انفعال، رہا یہ کہ عورت میں لذت کیوں زیادہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت کے مزاج میں برودت ہوتی ہے اور برودت کی خاصیت عسر القبول اور عسر الترک ہے یعنی ان کی شہوت کو دیر میں حرکت ہوتی ہے اور حرکت کے بعد دیر تک اثر بھی رہتا ہے اور اس میں ان کی اوعیہ منی کا بطون اور بعد بھی معین ہے، اور قاعدہ مسلمہ ہے کہ : الفاعل اذا لم يدم قل اثره ان کان قویا . مردوں میں گوحرکت جلدی ہوتی ہے مگر ختم بھی جلدی ہو جاتی ہے۔ دوام کا اثر بنسبت سرعت کےزیادہ ہوتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی شہوت بول کر لذت مراد لیتے ہیں از قبیل اطلاق سبب بر مسبب ، تو اگر کسی کلام میں یہ پایا جائے کہ عورت میں شہوت زیادہ ہے، مراد لذت ہوگی۔
احسن الفتاوی(5/66)میں ہے:
عقلاً و نقلا ً و تجربۃً وقیا ساً ہر لحاظ سے یہ امر مسلم ہے کہ مرد میں عورت کی بنسبت شہوت کئی گنا زیادہ ہے۔
شر عاًاس لئے کہ اللہ تعالی نے ایک مرد کو چار بیویوں کا اختیار دیا ہے، اگر عورت میں شہوت زیادہ ہوتی تو اس کا بر عکس ہونا چاہئے تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لئے بہت سی و عیدیں بیان فرمائی ہیں جبکہ وہ مرد کے بلانے پر ہمبستری کے لئے راضی نہ ہوں ، اگر عورت میں شہوت زیادہ ہوتی تو مردوں کے لئے ایسی وعیدیں آنی چاہیئے تھیں۔
عقلاً اس لئے کہ مرد کا مزاج گرم ہے جو سبب شہوت ہو اور عورت کا مزاج سرد ہے۔
تجربۃً اس لئے کہ کوئی شخص اس کا قائل نہیں اور اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا کہ عورت ہمبستری کی دعوت دے اور مرد انکار کرے ، اس کے برعکس اس کی مثالیں روزانہ پیش آتی رہتی ہیں کہ مرد بلاتا ہے عورت راضی نہیں ہوتی۔
قياساً اس طریقہ سے کہ دوسرے حیوانات میں یہ امر مشاہد ہے کہ ایک مذکر سیکڑوں مونث کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔۔۔مزید بر آں مرد میں کثرت احتلام اور عورتوں میں اس کا وجود کا لعدم ہونا بھی بین دلیل ہے کہ عورت میں شہوت کا لعدم ہو، ان امور سے ثابت ہوا کہ مرد میں شہوت زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved