• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مریض کو بھیجنے والے ڈاکٹر کو کمیشن دینا

استفتاء

میں ڈاکٹر زید اور بکر (فرضی نام )ہم دونوں کا جنرل  ڈاکٹروں کے ساتھ رابطہ ہے۔ جنرل ڈاکٹروں کے پاس جو مریض علاج کے لیے آتے ہیں اور ان مریضوں کے علاج کے لئے آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے ۔یامکمل  ہسپتال کی ضرورت ہوتی ہے  تو وہ جنرل ڈاکٹر اس مریض کو عمرو میڈیکل  سنٹر (فرضی  نام)میں ***** کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ ہم اس مریض کا علاج کرواتے ہیں ہسپتال کو خرچہ (کرایہ )دیتے ہیں ۔آپریشن  اگر سرجن سے کرواتے ہیں تو سرجن   اس کی فیس  دیتے ہیں۔ بے ہوشی والے ڈاکٹر کو بھی  فیس دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جو جنرل ڈاکٹر ہمیں مریض کو بھیجتے ہیں  اس کو  فیصد کے اعتبارسے حصہ  دیتے ہیں۔ اس کے بعد جو نفع بچ جاتاہے اس رقم (نفع) کو ہم  یعنی ڈاکٹر زید اور بکر آپس میں  تقسیم کرلیتے ہیں۔ اگر مریض بغیر جنرل ڈاکٹر کے بھیجنے کے  اگر عمرو میڈیکل سنٹر میں علاج کروائے گا۔ تواس کا خرچہ بھی تقریباً وہی ہوگا یعنی مریض  سے اضافی رقم لیے بغیر علاج کیا جائے گا۔ (نفع بھیجنے کی صورت میں  عمرو میڈیکل  سنٹر۔جنرل ڈاکٹر اور ہمارےدرمیان تقسیم ہوجائے گا)ڈاکٹر زید اور بکر کے لیے  یہ نفع لینا جائز ہے اور جنرل ڈاکٹروں کو حصہ  دینا جائز ہے یا نہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب : مذکورہ سوال میں چونکہ کئی معاملات کا ذکر ہے اس لئے ہرمعاملے کا شرعی حکم الگ الگ لکھا جارہا ہے۔

1۔سب سے پہلا معاملہ یہ ہے کہ ایک عام ڈاکٹر کسی مریض کے بارے میں جب یہ محسوس کرتاہے کہ اس مریض کو آپریشن کی یا مکمل ہسپتال کی ضرورت ہے تووہ اسے ایک دوسرے ڈاکٹر کے پاس جانے اور اس سے آپریشن یا مکمل علاج کرانے کا مشورہ دیتاہے  اور اس مشورہ پر مریض کے وہاں جانے کی  صورت میں اس دوسرے ڈاکٹر سے طے شدہ فیصدی حصہ بطور اجرت وصول کرتاہے خلاصہ  یہ کہ دوسرے ڈاکٹر کی طرف رہنمائی اور مشورہ کی اجرت وصول کرتاہے اس معاملے کا شرعی حکم یہ ہے کہ فقط کسی فردکو کسی مناسب جگہ یا شخص کے پاس جانے کا مشورہ دینے کا عمل شرعاً قابل  اجرت کام نہیں ہے لہذا اس پر اجرت کا لین دین جائز نہیں،(ملاحظہ ہو احسن الفتاویٰ ج7ص307)

2۔دوسرا معاملہ یہ ہے کہ دوسرا ڈاکٹر اس مریض کا علاج کرنے کے لیے ہسپتال کی عمارت اور دیگر آلات و مشین  استعمال کرتاہے اور اس کے عوض ہسپتال والوں کو طےشدہ  فیصدی حصہ دیتاہے ۔ یہ معاملہ دراصل  ہسپتال کی عمارت اور آلات علاج کو کرائے پر لینے کا ہے لہذا ہسپتال کے مالکان  اور صاحب اختیار افراد کی اجازت ورضا کے ساتھ یہ معاملہ شرعاً درست ہے(ملاحظہ ہو رجسٹر تبویب کتاب الاجارہ ص10 مرتبہ حفیظ اللہ ڈیروی)

3۔تیسرا معاملہ یہ ہے کہ علاج اور آپریشن کرنے کے لیے ڈاکٹر حضرات کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور ان کی خدمت کے عوض ان کو  طے شدہ فیصدی حصہ دیاجاتاہے یہ  معاملہ بھی شرعاً درست ہے (ملاحظہ ہو امداد المفتین  :ص976 )

4۔چوتھا معاملہ یہ ہے کہ یہ دوسرا ڈاکٹر خود بھی ایک طے شدہ حصہ رکھتاہے اس بارے میں تفصیل  یہ ہے کہ اگر یہ ڈاکٹر براہ راست علاج کرتا ہے یا آپریشن  کے عمل میں شریک ہوتاہے تب تو اس کا اپنے لیےطے شدہ حصہ رکھنا بلاشبہ درست ہے اس لیے کہ اس صورت میں یہ  اس کی خدمت کا عوض ہوگاجو شرعاً درست ہے (جیسا کہ ابھی نمبر3  میں گزرا)اور اگر یہ ڈاکٹر براہ راست مریض کا علاج نہیں کرتااور  نہ ہی آپریشن وغیرہ کے عمل میں شریک ہوتاہے توایسی صورت میں اگر مریض کو یہ بات معلوم ہوکہ   یہ ڈاکٹر خود علاج نہیں کرے گا بلکہ  کسی اور ڈاکٹر سے کروائے گااور مریض اس بات پر راضی ہوتو پھر اس  ڈاکٹر کے لئے اپنا طے شدہ حصہ رکھنا درست ہے بشرطیکہ مریض کا علاج اور اجرت وغیرہ کا معاملہ خود اسی ڈاکٹر سے طے پایا ہو اور اگر مریض کی طرف سے اس بات کی اجازت  نہ ہویا اسے معلوم ہی نہ ہو توپھر اس ڈاکٹر ا اپنے لیے  حصہ رکھنا  درست نہیں(ملاحظہ ہو رجسٹر تبویب کتاب الاجارہ ص 39مرتبہ حفیظ اللہ ڈیروی)

5۔پانچواں معاملہ یہ  ہے کہ عام ڈاکٹر اوراس دوسرے ڈاکٹر کے درمیان  رابطہ برقرار رکھنے والے شخص اس کام کے لیے خاص طور پراپنا وقت نکالتا ہے  اوراس کام کے لئے  کوشش بھی کرتاہے تواس کا حصہ لینا درست ہے اس لیے کہ یہ آنے جانے کی اور ترغیب وغیرہ دینے کی اجرت  ہے بشرطیکہ  دھوکہ  دہی  سے کام نہ لیتاہو۔(جدید فقہی مسائل ج1ص 396)

قال العلامة ابن عابدين شامي رحمه الله تعالی ….والدلالة ليست بعمل يستحق به الأجر فلا يجب الأجر وإن  خصص بأن قال لرجل بعينه إن دللتني عليه جعلك كذا، مشی له ودله يجب أجرالمثل فی المشی لأن ذلك عمل يستحق بعقدالإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجرالمثل وإن دله بلا مشی فهو  والأول سوآء(شامي ص280 و 281 ج4) قلت : الطبيب  أي الدكتور فی صورة مسئولة لا يمشی مع المريض بل يدل إلی الدكتور الماهر فقط فهذه دلالة محضة بلا مشی فلا  يستحق بها الأجر(نیز ملاحظہ ہو شامی :ج 6ص 95)

صح إجارة الدور والحوانيت (هدايه ص 295 ج3)

قال: وإذا شرط علی الصانع أن يعمل بنفسه فليس له أن يستعمل غيره لأن  المعقود عليه إتصال العمل  فی محل بعينه فيستحق عليه كالمنفعة جی محل بعينه وإن أطلق له العمل فله  أن يستأجر من يعمله  لأن المستحق عمل فی ذمته ويمكن إيفاءه بنفسه و بالإستعانة بغيره بمنزلة إيفاء الدين (هدايه  ج 3،ص 296 .397) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اتنی بہت سی شقیں نکال کر جواب کو مستفتی پر مشکل  کردیا گیا ہے اوراگراگر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے  جواب کی متعین صورت  نہیں بتائی گئی حالانکہ  مستفتی سے  سوال کی تعیین کرانی مشکل نہیں ہے۔

سوال کا حاصل یہ  ہےکہ جنرل ڈاکٹرایسے مریض کو جس کو سرجری یا ہسپتال کے علاج کی ضرورت ہو*** کو بھیجتا ہے***  ایسے مریض کا علاج  کرواتے ہیں اور مریض کو بل بنا کردیتے ہیں جس میں سے وہ اپنی اجرت بھی نکالتے ہیں اورجنرل ڈاکٹر کا حصہ بھی نکالتے ہیں۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر رضوان مریض کے اجیر ہیں؟

بظاہر مریض  کواجارہ کا کچھ علم نہیں ہوتا اور نہ ہی   مریض اور **** کے درمیان اجارہ کی بات ہوتی ہے ۔ اور نہ اجرت طے ہوتی ہے ۔ لہذا فریقین  کے مابین اجارہ کا تحقق بھی مجہول ہے اوراجرت بھی مجہول ہے۔ اور جنرل ڈاکٹر کی حصہ داری بھی جا ئز نہیں جس کی  ایک وجہ  جواب میں لکھی گئی ہے۔ اوردوسری وجہ یہ ہے  کہہ جنرل  ڈاکٹر مریض سے عموماًاپنی اجرت وصول کرتاہے اوراس کے کام میں مشورہ بھی شامل ہوتاہے۔کہ کس کے پاس جائے۔

لہذا مسئولہ صورت جائز نہیں۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved