• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرحوم کے قرض کی واپسی کا طریقہ کار اور اس میں سے ہر ایک وارث کا حصہ

استفتاء

میں نے ایک دوست *** (مرحوم) سے چندہ ماہ قبل ایک لاکھ روپے قرض حسنہ لیا تھا جو کہ 30 نومبر 2013ء کو واپسی کا وعدہ تھا، *** 2 ہفتہ قبل فوت ہو گئے ہیں، میں نے *** کو 30 نومبر کا ایک لاکھ کا چیک بھی دیا تھا جو کہ ان کے بنک میں جمع نہ کرایا گیا ہے، اور نہ ہی اب ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہو سکتا ہے، بلکہ میری معلومات کے مطابق یہ چیک ان کے ورثاء کے پاس ہے۔

*** کے ورثاء میں 1۔ ایک بیوی ہے، اولاد کوئی نہ ہے،  2۔ پانچ سگی بہنیں ہیں بھائی کوئی نہیں، 3۔ چچا فوت ہو گئے ہیں، چچی اور چچا کے دو بیٹے ہیں، 4۔ *** کے والدین بھی فوت ہو چکے ہیں۔ مرحوم کی بیوہ اور بہنوں میں اچھا سلوک نہ ہے ناچاقی ہے۔

برائے مہربانی مجھے بتائیں کہ اب یہ ایک لاکھ روپے ان ورثاء میں سے کس کو دیا جائے یا ان ورثاء میں کس کا کتنا حصہ بنتا ہے تاکہ میں قرض ادا کر کے سرخرو ہو سکوں۔ مزید یہ کہ اگر ورثاء میرا چیک مجھے واپس نہ کریں جو کہ وہ کہتے ہیں "معلوم نہیں چیک کہاں ہے” تو کیا پھر بھی مجھے قرض کی رقم ان کو ادا کر دینی چاہیے؟ اور جب تک ورثاء سے میرا رابطہ نہ ہو کیونکہ معلوم ہوا ہے *** کی بہنیں کسی غیر مرد سے ملنا نہیں چاہتی اور بیوہ عدت میں ہے وہ بھی کسی غیر مرد سے ملنا نہیں چاہتی، تو کیا میں یہ رقم ورثاء سے رابطہ نہ ہونے تک اپنی ذات کے لیے استعمال کر سکتا ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں آپ ایک لاکھ روپے میں سے 25 ہزار روپے مرحوم کی بیوی کو اور 13333.33 روپے مرحوم کی ہر ایک بہن کو اور 4166.66 روپے مرحوم کے چچا کے ہر ایک بیٹے کو دیدیں۔

2۔ آپ مذکورہ بالا تناسب سے ہر وارث کو رقم ادا کر دیں جس کی رسید ہر ایک سے لے لیں اور بینک والوں کو لکھ کر دیں کہ اگر کبھی اس نمبر کا چیک آئے تو آپ کو اطلاع دی جائے اور ادائیگی نہ کی جائے۔

3۔ محض چیک دینے سے آپ کا قرض ادا نہیں ہوا۔

4۔ خود رابطہ کر کے یا اپنی بیوی یا کسی دیگر خاتون کے ذریعے رابطہ کر کے جتنی جلدی ہو سکے ورثاء کی رقم ان تک پہنچائی جائے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved