- فتوی نمبر: 33-112
- تاریخ: 30 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
زید نامی شخص کا انتقال ہو گیا ہے۔اس کے انتقال کے وقت اسکی بیوی، 2 بیٹے اور 1بیٹی موجود تھے جو اب بھی حیات ہیں اس لیے زید کی وراثت تقسیم کردی گئی۔ زید کی وفات کے وقت اس کے دو بھائی( خالد اور بکر) اور ایک بہن بھی زندہ تھے، زید کے انتقال کے بعد اس کے بھائی خالد نے زید کی بیوہ سے نکاح کرلیا، خالد کی اس نکاح سے پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ پھر خالد کا انتقال ہو گیا اس کے ورثاء میں بیوہ، پانچ حقیقی بیٹیاں 2 سوتیلی بیٹیاں، ایک سوتیلا بیٹا، ایک بھائی بکر اور ایک بہن حیات تھی ۔پھر بہن کا بھی انتقال ہو گیا۔ بہن کا شوہر تو پہلے ہی فوت ہو گیا تھا البتہ بہن کی اولاد میں پانچ بیٹے اور ایک بیٹی موجود ہے۔ خالد کی جائیداد میں دو پلاٹ ہیں جس کی مالیت 3 کروڑ ہے۔ مذکورہ صورت کے پیش نظر خالد کی وراثت کی تقسیم کس طرح ہوگی نیز خالدکے سوتیلے بچوں کا وراثت میں حصہ ہوگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں خالد مرحوم کی وراثت کو کل 3960 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے مرحوم کی بیوہ کے 495 حصے (12.5 فیصد)، مرحوم کی حقیقی بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کے 528-528 حصے (13.33 فیصد فی کس) اور مرحوم کے بھائی کے 550 حصے (13.89 فیصد) جبکہ فوت شدہ بہن کے پانچ بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو 50-50 حصے(1.26فیصد فی کس)اور ایک بیٹی کو 25 حصے (0.63فیصد)ملیں گے ۔ اور خالد کے سوتیلوں بچوں کا محمد اسلم کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں۔
رقم کی تقسیم درج ذیل ہے:
بیوی | 37,50,000 |
پانچ حقیقی بیٹیاں | 40,00,000 فی کس |
بھائی(جان محمد) | 41,66,666.67 |
پانچ بھانجے | 3,78,787.88 کس |
ایک بھانجی | 1,89,393.94 |
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved