- فتوی نمبر: 3-128
- تاریخ: 06 مئی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
ضیاء صاحب انتقال کر گئے ہیں ان کی ایک بیوی ہے لیکن ان کی اولاد نہیں ہے ۔ ضیاء ، خالداور ان کی ایک ہمشیرہ (تین بہن، بھائی )تھے ۔دونوں بہن بھائی ضیاء کی حیات میں انتقال کر گئے تھے۔خالد کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن ان کی ہمشیرہ کے چار بچے (2 بیٹے 2 بیٹیاں) ہیں ۔ ضیاء کی جتنی پراپرٹی ہے وہ ان کی ذاتی پراپرٹی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ضیاء کی پراپرٹی پر ان کی بیوی کا حق ہے یا ان کی بہن کے بچوں کا؟
وضاحت مطلوب ہے:ضیاء کے چچا، تایا یا ان کی اولادوں میں سے کوئی زندہ ہے؟
جواب وضاحت :ضیاء کے 5تایا تھے جو پہلے ہی فوت ہو گئے تھے ۔ان کی اولاد بھی ضیاء کی حیات میں فوت ہو گئی تھی البتہ آگے ان کی اولادوں میں سے بیٹے موجود ہیں اور وہ کافی سارے ہیں تقریبا 10 ،15 ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ضیاء کی وراثت کی حقدار مرحوم کی بیوہ ہے اور ضیاء کی وفات کے وقت اس کے تایا زاد بھائیوں کے بیٹوں میں جو موجود تھے وہ سب بھی وارث ہیں۔ مذکورہ افراد میں وراثت کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ ضیاء مرحوم کی وراثت کو 4 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے 1 حصہ (25 فیصد) مرحوم کی بیوہ کو اور3 حصے (75 فیصد) تایا زاد بھائیوں کے صرف بیٹوں میں برابر تقسیم ہوں گے۔
ضیاء کی جائیداد میں ضیاء کے بہن کے بچوں کا اور اسی طرح تایا زاد بھائیوں کی بیٹیوں کا کوئی حق نہیں ہے۔
السراجی فی المیراث (ص:3) میں ہے:
ثم يقسم الباقى بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الامة فيبدأ باصحاب الفرائض …. ثم بالعصبات ….. ثم الرد (أى عند عدم من تقدم ذكره من العصبات) على ذوي الفروض النسبية بقدر حقوقهم ثم ذوي الارحام.
السراجی فی المیراث(ص:14)میں ہے:
’’ومن لا فرض لهامن الاناث واخوها عصبة لا تصير عصبة باخيها‘‘
مفید الوارثین (146) میں ہے:
اگر چچا کے ساتھ چچا کی بہن یعنی میت کی پھوپی بھی موجود ہو تو وہ عصبہ نہ ہوگی بلکہ محروم رہے گی کیونکہ وہ ذوی الارحام میں داخل ہے اور ذوی الارحام کو اس وقت ملتا ہے کہ کوئی عصبہ موجود نہ ہو یہاں چونکہ چچا عصبہ موجود ہے لہذا پهوپھی محروم ہوگى۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved