• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مارکیٹنگ اور کال سینٹر کے کام میں شرکت کے متعلق چند سوالات

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے  دین وفقہا ئے شرع متین بیچ اس مسئلہ کے کہ ہم تین شراکت دار ہیں اور مل کر ایک کال سینٹر چلا رہے ہیں کام شروع کرنے سے پہلے ہماری کچھ باتیں طے ہوئی تھیں اور کچھ اَن کہی رہ گئی تھیں جن پر  ہم تینوں اپنی اپنی سوچ سمجھ کے مطابق عمل کرتے  رہے ہیں مگر اب وہ تذبذب کا باعث بن رہی ہیں لہذا  اپنے ان معاملات میں ہمیں شرعی رہنمائی درکار ہے۔ کام شروع کرتے وقت  طے شدہ معاہدہ تھا کہ ایک حصہ دار تمام تر سرمایہ کاری کرے گا   اور آمدن کی دیکھ بھال کرے گا  مثلاً اکاؤنٹس   ٹیم کو دیکھنا اور بینک کے متعلقہ امور دیکھنا ، دوسرا حصہ دار کمپنی کے تمام امور چلائے گا  مثلاً کام کرنے والی ٹیم مہیا کرنا اور ان کو ٹریننگ وغیرہ  دینا اور تیسرا حصہ دار اپنے تجربہ اور مشاورت سے مدد فراہم کرے گا،مثلاً کام کرنے والی ٹیم کو جہاں کہیں پیچیدگی کا سامنا ہو اس کا حل کرنا  اس سلسلے میں  ان کا دفتر  میں آنا بھی ہوتا ہے اور فون پر بھی ان سے رابطہ کیا جاتا ہے  لہٰذا  ایک سال پہلے شروع ہونے والا کارو باراپنی وسعت کی طرف گامزن ہے۔

کاروبار کی نوعیت  کچھ یوں ہے کہ ہم لوگ ایک کال سینٹر کے ذریعے مختلف ممالک میں اپنی خدمات فراہم  کرتے ہیں اورہمارے کاروبار میں کوئی چیز بنائی نہیں جاتی صرف اپنی خدمات مہیا کی جاتی ہیں۔ ہم امریکہ کینیڈا، برطانیہ اوردیگرممالک میں موجود کمپنیوں سے رابطہ کر کے انہیں  اپنی خدمات مہیا کرتے ہیں اور تمام کمپنیوں کوحتی الامکان  پاکستان سے کام کرنے کی آگاہی دیتے ہیں اب چاہے کوئی کمپنی ہم سے اپنی چیزیں سیل کروائے یا اپنے موجودہ گاہکوں کی رہنمائی کا کام لے، وہ جس طرح کی سروس چاہتے ہیں ہم اس کے مطابق ان سے پیسے طلب کر لیتے ہیں۔ بیرون ملک کام کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ کسی شخص نے اپنے گھر کا کوئی بھی کام کروانا ہو  مثلا لکڑی کا کام کروانا ہو  تو وہ شخص ہم سے رابطہ کرتا ہے ، ہم اس کے کام کی تفصیلی ای میل بنا کر لکڑی کا  کام کرنے والی کمپنی کو  بھیج دیتے ہیں  اور وہ کمپنی اس شخص کا کام کردیتی  ہے اور ہمیں  ہمارا کمیشن  دے دیتی ہے ،  اور وہ کمیشن ہم طے شدہ تناسب سے آپس میں  تقسیم کر لیتے ہیں۔اسی طرح ہم نے مختلف کمپنیوں سے معاہدہ کیا ہوتا ہے اور ان کمپنیوں کو ہم اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں اسکی تفصیل یہ ہے کہ  مثلاً کسی شخص کا  انٹر نیٹ ٹھیک نہیں چل رہا وہ شخص انٹرنیٹ والی کمپنی میں رابطہ کرے گا اس کمپنی کے ساتھ پہلےسے ہمارا معاہدہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کی کال ہمیں آ جائے گی  اور ہمارا نمائندہ کال پر اس شخص کو طریقہ کار بتائے گا کہ یہ کام کریں آپ کا انٹرنیٹ ٹھیک ہو جائے گا اس پر کمپنی ہمیں اجرت دیتی ہے ۔ اسی طرح مارکیٹنگ کے لیے ہم خود بھی لوگوں کو کال کرتے ہیں جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے   کہ کمپنی ہمیں اپنی پراڈکٹ کی طرف لوگوں کی راہنمائی  کرنے کا کہتی ہے ہم لوگوں کو خود کال کر کے اس پراڈکٹ کا بتاتے ہیں اور خریداری کے لئے کمپنی سے رابطہ کرواتے ہیں جس پر کمپنی ہمیں کمیشن دیتی ہے جو طے شدہ تناسب سے ہم تقسیم  کرتے ہیں ۔

حصہ داروں کی تفصیلات:

(1) *** سرمایہ کار ہے اور %48.5 کا حصہ دار ہے۔ معاہدے کے مطابق کاروبار بنانے سے چلانے تک کی تمام سرمایہ کاری  مثلا آفس وغیرہ بنانے کا خرچہ ان کی ذمہ داری ہے اور بینک  کے کچھ امور (جن کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے) ان کے سپرد ہیں۔

(2) *** تجربہ کار آدمی ہے اور %48.5 کا حصہ درا ہے۔ معاہدے کے مطابق کاروبار چلانے کی تمام تر ذمہ داری ان کی ہے اور کمپنی کے تمام امور چلانا ان کے سپرد ہیں۔

(3) *** اپنی گڈول اور مشاورتی عمل کی وجہ سے %3 کا حصہ دار ہے۔ معاہدے کے مطابق کاروباری امور کی بہترین ترسیل کے لیے جہاں کہیں ضرورت ہو ان کے تجربہ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ معاہدہ کے مطابق *** نے اکتوبر 2020ء کو تمام تر سرمایہ *** کو مہیا کر دیا جس کی مدد سے *** نے آفس بنانے کے تمام امور انجام دیے اور ایک مہینہ کی مدت کے بعد مؤرخہ 9 نومبر 2020 ء کو دفترکا با قاعدہ آغاز کیا۔ دفتر کھلنے سے آج تک کی تاریخ تک سوائے بینک کے تمام کاروباری امور کی ذمہ داری *** پر ہے اور وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اسکو سرانجام دے رہا ہے اور شروع دن سے اس کی تنخواہ بھی لے رہا ہے جبکہ بینک  کے امور اور سٹاف کی سیلری کے لیے چیک وغیرہ بنانا *** کے سپرد ہے۔اس دوران *** کی جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوئی اس  نے اپنے مشاورتی عمل سے راہنمائی کی اور اس عمل میں *** بھی برابر شریک ہوتا رہا  اور یوں تینوں شراکت داروں کی کاوشوں سے کاروبار اپنی ترقی کی طرف گامزن ہے۔

سوال نمبر 1۔ معاہدے کے مطابق *** کی وجہ قابلیت سرمایہ کاری  اور بینک کے تمام امور دیکھنا ہے اور اسی وجہ سے وہ اس کاروبار میں %48.5 کا حصہ دار  ہے۔ کیا *** اور *** کو*** کا لگایا ہوا اصل سرما یا واپس کرنا ہے یا طے شدہ منافع %48.5 ہی ادا کرناہے؟ یعنی طے شدہ فی صد لیتے لیتے اصل سرمایہ ان کا محفوظ رہے گا جو کہ واپس کرنا ہوگا ؟

سوال نمبر2۔ *** کی سرمایہ کاری کے علاوہ کاروبار میں م*** کوئی ذمہ داری نہیں ہے الّا یہ کہ وہ بینک کے معاملات دیکھتا ہے  اس صورت میں(الف)  کیا *** اپنے طے شدہ حصے کے علاوہ کوئی تنخواہ لے سکتے ہیں؟(ب) نیز باقی شرکاء کا تنخواہ لینا کیسا ہے اور(ج)  تنخواہ لینا یا نہ لینا کون طے کرے گا، (د)کوئی اکیلا شریک اپنی مرضی سے اپنی تنخواہ مقرر کرسکتا ہے؟

سوال نمبر 3۔ اگر *** کاروبار کی وسعت میں م*** دلچسپی نہیں رکھتا اور  *** اور *** کسی اور سرمایہ کار کی مدد  سے یا اپنے سرمائے سے کاروبار کو وسیع کرتے ہیں تو ایسی صورت میں *** کے حصے کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ یعنی کیا  *** کا سرمایہ واپس کرنا ہوگا ؟

سوال نمبر 4۔ طے شدہ معاہدے کے مطابق *** اور *** کوئی بھی سرمایہ کاری نہیں کریں گے تو ایسی صورت میں خدانخواستہ کسی نقصان کی صورت میں ان دونوں پر کوئی بھی ذمہ داری عائد ہوگی؟

سوال نمبر 5۔ کسی بھی وقت اگر *** اپنی شراکت ختم کرنا چاہے تو اس کا طریقہ کار اور ادائیگی کا ضابطہ کیا ہوگا؟

سوال نمبر 6۔ کاروبار چل جانے کے بعد م*** وسعت دینے کے لیے منافع کا استعمال کیسا ہے اور *** کب تک سرمایہ لگا تار ہے گا؟ یعنی جب سرمائے کی ضرورت ہو *** سرمایہ مہیا کرتا ہے کیا سب شریک اپنے نفع کو سرمائے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں؟

سوال نمبر 7:شرکت کے م*** اصول وضوابط کیا ہیں اورہم سے جہاں کہیں کوئی کوتاہی ہوئی اس کا سد باب کیا ہوگا؟ براہ کرم قرآن وحدیث اور اسلامی فقہ کی روشنی  میں رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت جائز ہے ۔البتہ اتنی بات یاد رہے کہ شرعی لحاظ سے اس پارٹنرشپ کی حیثیت شرکت عنان (مال کی بنیاد پر شرکت) کی نہیں ہے  کیونکہ ان پیسوں سے خرید وفروخت نہیں کی جارہی بلکہ تین لوگوں نے مل کر لوگوں کو مختلف خدمات فراہم کرنے کی ذمہ داری لی ہے لہٰذا   یہ شرکت صنائع کی صورت بنتی ہے اور شرکت صنائع کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ عمل اور تقبل (ضمان) دونوں میں شرکت ہوہمارے عرف میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہم اتنے اتنے حصے کے شریک ہیں اس میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ اتنے اتنے حصوں کے بقدر  نفع ونقصان دونوں میں شریک ہیں لہٰذا مذکورہ صورت کو  بھی  اسی پر محمول کیا جائے گا ۔اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :

1۔جب تک شرکت بر قرار ہے تب تک *** کو نفع میں سے طے شدہ تناسب دیا جائے گا اور جب شرکت ختم ہو گی تب اس کا اصل سرمایہ  جس شکل میں موجود ہوگا وہ ساری چیزیں *** کی شمار ہوں گی چاہے ان چیزوں کی قیمت  کم  ہوگئی ہو یا زیادہ ہوگئی ہو  جتنا سرمایہ لگایا ہے اس کی واپسی ہر حال میں ہو یہ درست نہیں۔

2۔(الف) *** اپنے طے شدہ حصے کے علاوہ تنخواہ نہیں لے سکتا ۔

(ب)باقی شرکاء بھی تنخواہ نہیں لے سکتے ۔

(ج،د) جب کوئی بھی شریک تنخواہ نہیں لے سکتا تو تنخواہ کون طے کرے گا یا اکیلا کوئی شریک اپنی مرضی سے تنخواہ مقرر کر سکتا ہے یہ سوال پیدا نہیں ہوگا ۔

3۔م*** کوئی شخص صرف سرمایہ کی بنا پر شریک نہیں بن سکتا البتہ آئندہ کے لیے باقی تین کے ساتھ وہ بھی اس کام کی ذمہ داری لے تو گویا آگے چاروں میں شرکت قائم ہوجائے گی اور اس صورت میں وہ سرمایہ بھی شامل کرسکتا ہے۔ نیز اگر *** بھی شرکت میں باقی رہتا ہے تو ***  کو سرمایہ واپس کرنا ضروری نہیں اور اگر *** شرکت ختم کرتا ہے تو جس صورت میں اس کا سرمایہ ہوگا وہ ساری چیزیں *** کی شمار ہوں گی، البتہ اس صورت میں باقی شرکاء اس سے وہ چیزیں باہمی رضامندی سے خرید سکتے ہیں۔

4۔جس تناسب سے نفع طے کیا گیا ہے اسی تناسب سے سب شرکاء نقصان کے بھی ذمہ دار ہوں گے لہٰذا مذکورہ صورت میں *** اور *** بھی اپنے نفع کے تناسب سے نقصان کے بھی ذمہ دار ہوں گے۔

5۔*** شرکت ختم کرنا چاہے تو *** کا سرمایہ   جس شکل میں موجود ہوگا وہ ساری چیزیں *** کی شمار ہوں گی چاہے ان چیزوں کی قیمت  کم ہوگئی ہو  یا زیادہ ہوگئی ہو  ۔

6۔   ساروں کی رضامندی سے نفع استعمال کیا جاسکتا ہے البتہ *** جب تک اپنی  خوشی سے م*** سرمایہ  دیتا رہےتو ٹھیک ہے   ورنہ اسکے ذمے نہیں کہ آگے کاروبار کی  وسعت کے لیے جتنی ضرورت پڑے  وہ ہی سرمایہ فراہم  کرتا رہے۔

7۔مذکورہ بالا جوابات میں تفصیل آگئی ہے ۔

مجلۃالأحكام العدلیہ (ص267)میں ہے:

«المادة (1385) شركة الأعمال عبارة عن عقد شركة على ‌تقبل ‌الأعمال فالأجيران المشتركان يعقدان الشركة على تعهد والتزام العمل الذي يطلب ويكلف من طرف المستأجرين سواء كانا متساويين أو متفاضلين في ضمان العمل , أي سواء عقدا الشركة على تعهد العمل وضمانه متساويا أو شرطا ثلث العمل لأحدهما والثلثين للآخر»

مجلۃالأحكام العدلیہ (ص269)میں ہے:

«المادة (1394) عقد ‌الحمالين الشركة على أن يكونوا مشتركين في التقبل والعمل صحيح ……………. وفي الهندية : فيجنان اشتركا في نقل كتب الحاج على ان ما رزقهما الله تعالى فيه فبينهما نصفان فهذه الشركة جائزة كذا في القنية ۔ والمراد اشتركا في تقبل نقل كتب الحاج۔ والفيجنان تثنية فيجن كحهدر هو المتنحي عن وطنه ۔

مجلۃالأحكام العدلیہ (ص:269)میں ہے:

«المادة (1396) إذا ‌عقد ‌اثنان شركة صنائع على أن الدكان من أحدهما والعمل من الآخر صح»

شرح المجلہ (4/ 287) میں ہے:

إذا أتلف وتعطل المستأجر فيه بصنع أحد الشريكين فيضمنه مع شريكه بالاشتراك وللمستأجر أن يضمن ماله لأيهما شاء ويقسم هذا الخسار بين الشريكين بنسبة مقدار الضمان، مثلا إذا عقدا الشركة على تقبل الأعمال وتعهدها مناصفة فيقسم الخسار مناصفة أيضا، وإذا عقدا الشركة على تقبل الأعمال وتعهدها ثلثا وثلثين فيقسم الخسار حصتين وحصة لان الوضيعة يعنى الخسران لاتكون بينهما الا على قدر الضمان.

شرح مجلہ میں (314 تا 317) ہے:

مادة 1390 : يقسم الشركاء الربح بينهم على الوجه الذى شركوه یعنی ان شرطوا تقسيمه متساويا يقسموه متساويا وان شرطوا تقسيمه متفاضلا كالثلث والثلثين مثلا يسم حصتين وحصة. مادة 1392: الشريكان بضمان العمل يستحقان الاجرة فاذا عمل احد الشريكين وحده والآخر لم يعمل كما لو مرض او ذهب الى محل آخر او جلس بطالا فيقسم الربح والاجرة بينهما على الوجه الذي شرطاه .

مادة 1396 : اذا عقد اثنان شركة الصنائع على ان الدكان من احدهما ومن الآخر العمل فيصح وقال الاتاسى تحته سواء شرطا العمل عليهما او على صاحب الادوات والقياس ان لا تصح في الثانية لان من احدهما العمل ومن الآخر الحانوت و استحسن جوازها لان المشترك فيه في شركة التقبل انما هو العمل كما تقدم عن النهر….. والتقبل من صاحب الحانوت عمل

المحیط البرہانی (6/43) میں ہے:

في «المنتقى» : ‌اشتركا ‌يعملان على أن لأحدها أجر كل شهر عشرة دراهم، ليس من مال الشركة، فالشركة جائزة والشرط باطل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved